Dawn News Television

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2021 11:57am

سپریم کورٹ کی افرادی قوت سے متعلق درخواست پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کی پوری افرادی قوت کی معلومات سامنے لانے سے متعلق درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اٹارنی جنرل پاکستان سے معاونت طلب کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار جواد پال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) عامر رحمٰن خان کے ذریعے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پی آئی سی نے رواں سال 12 جولائی کو شہری مختار احمد کی درخواست پر انہیں سپریم کورٹ کے گریڈ ایک سے 22 کے عملے کی منظور شدہ تعداد، خالی آسامیوں، سپریم کورٹ میں موجود دیہاڑی داروں اور یکم جنوری 2017 کے بعد خالی ہونے والے عہدوں سمیت عدالت عظمیٰ میں کام کرنے والے معذور اور مخنث افراد کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی اجازت دی تھی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کردی

سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پی آئی سی کے حکم کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی جسے رواں سال نومبر میں خارج کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں رجسٹرار نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت عالیہ، پی آئی سی کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے۔

درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں ہوئی۔

ایڈیشنل اٹارجی جنرل عامر رحمٰن نے دلیل دی کہ قانون کے تحت پی آئی سی اس طرح کے حکم جاری نہیں کر سکتا۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جب انہوں نے پی آئی سی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت انہیں فیصلے پر مزید نظر ثانی کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارجی جنرل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہو سکتے ہیں اور کیا عدالت عظمیٰ، رجسٹرار کے خلاف یا حق میں کوئی حکم جاری کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا رولز کیس میں معاونین کا تقرر کردیا

کیس کی مزید سماعت آئندہ تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

درخواست کے مطابق معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے سیکشن 17 کے تحت پی آئی سی، کسی بھی سرکاری ادارے کے عہدیدار کے بارے میں فیصلہ دے سکتا ہے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ پی آئی سی نے قانون کو سمجھنے میں غلطی کی ہے کہ سپریم کورٹ ایک عوامی ادارہ ہے اور وہ وفاقی قانون اور آئین کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہا ہے۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ آرٹیکل 191 اور 202 سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو اپنی پریکٹس اور طریقہ کار کے لیے قواعد ریگولیٹ کرنے کااختیار دیتے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’پی آئی سی کی طرف سے قانون کے سیکشن 20 (ای) کے تحت حاصل اختیار کا استعمال کرتے ہوئے قانون کے سیکشن 9 کے تحت نامزد افسر کے نوٹی فکیشن اور معلومات اور ریکارڈ کی اشاعت کے لیے اقدامات اٹھانے کے لیے جاری ہدایت عوامی اداروں پر تو لاگو ہوتی ہے لیکن آئینی عدالت پر نہیں‘۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’صرف ایسی معلومات سے روکا جاسکتا ہے جو عدلیہ کی آزادی کو سلب کرے، یہ رکاوٹ جانچ پڑتال یا شفافیت ختم کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ عوام کے وسیع تر مفاد کو یقینی بنانے کے لیے ہوتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا اداروں کیلئے پاکستان میں جلد از جلد دفاتر قائم کرنا لازمی قرار

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی لازمی ہے تاکہ بنیادی حقوق کے قوانین مؤثر انداز میں نافذ کیے جاسکیں، قانون کے ذریعے شہریوں کی انصاف تک رسائی ممکن بنائی جاسکے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت پی آئی سی کے حکم کو غیر قانونی قرار دے۔

درخواست گزار مختار احمد نے ابتدائی طور پر سپریم کورٹ میں معلومات کی درخواست دی تھی تاہم رجسٹرار کے انکار پر انہوں نے پی آئی سی سے رجوع کیا تھا۔

Read Comments