Dawn News Television

اپ ڈیٹ 09 فروری 2022 08:40am

صرف ٹیکسز لگانے تک محدود نہ رہیں، آئی ایم ایف کا پاکستان سے 'ڈو مور' کا مطالبہ

پاکستان کو صرف ٹیکس سے متعلق اقدامات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے معیشت کی مسابقت بڑھانے کے لیے دیگر طریقے بھی تلاش کرنے چاہئیں۔

ڈان اخبار کیرپورٹ کے مطابق یہ بات عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ریذیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداروں سے بات کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دینا اور ملک کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کو اس سلسلے میں اس کے وژن کو فروغ دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف کا اسٹیٹ بینک سے تعمیراتی سرگرمیوں سے متعلق اقدامات واپس لینے کا مطالبہ

نمائندہ آئی ایم ایف نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد پالیسیوں کا ایک سلسلہ لانا ہے جو پائیدار اور جامع ترقی کو فروغ دے سکے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ ملک کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں ٹیکس کی شرح کا تناسب بہت کم ہے، اس لیے حالیہ فنانس بل کے ذریعے انڈسٹری کو سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کا مقصد ٹیکس کے نظام میں پیچیدگیوں کو کم کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان دیرپا اور پائیدار ترقی حاصل کرے اور اس کے لیے سب سے پہلے میکرو اکنامک پالیسیوں کو لاگو کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے، جس سے ملک کی معاشی ترقی ہو۔

مزید پڑھیں:آئی ایم ایف سے ٹیکسز میں 12 کھرب 72 ارب روپے کے بڑے اضافے کا وعدہ

آئی ایم ایف نمائندہ نے کہا کہ تاہم ہم آپ کی جانب سے (آئی ایم ایف پروگرام پر) ریمارکس، مشاہدات اور خدشات سننے کے لیے تیار رہیں گے۔

اس موقع پر لاہور چیمبر کے صدر میاں نعمان کبیر نے کہا کہ چیمبر پاکستان کے جاری 22ویں آئی ایم ایف پروگرام کے قومی معیشت اور خاص طور پر نجی شعبے کی ترقی پر اثرات کے حوالے سے کافی حساس ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم ہم 21ویں پروگرام کی طرح اس پروگرام کی کامیاب تکمیل کا مشاہدہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی4 روپے ہر مہینے بڑھانا ہے، شوکت ترین

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ بات چیت میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا اور دیگر ممالک کی جانب سے اپنائے جانے والے اس طرح کے پروگرامز سے متعلق اہم کامیابی کی کہانیوں کے بارے میں بھی جانا۔

Read Comments