Dawn News Television

اپ ڈیٹ 31 مئ 2022 12:36pm

قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو گیس کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی، مصدق ملک

پیٹرولیم ڈویژن نے گیس سیکٹر کے 15 کھرب روپے کے گردشی قرضے کے پیش نظر کہا ہے کہ گیس کمپنیاں گیس پر ٹیکس میں اضافے کے بغیر دیوالیہ ہو جائیں گی جو کہ اب ترمیم شدہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری (اوگرا) ایکٹ کے تحت ناگزیر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک اور سیکریٹری علی رضا بھٹہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرول کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اس دیوالیہ سے نکلنے کے لیے معاونت کرے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پچھلی حکومت کے منظور کیے گئے نظرثانی شدہ اوگرا ایکٹ کے تحت گیس کی قیمت میں اضافے سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا انتباہ

سینیٹر عبدالقادر کی صدارت میں ہونے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں مصدق ملک نے بتایا کہ گیس کمپنیوں کے اثاثے اور منافع ختم ہو رہا ہے اور حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ ان کی معاونت کرے، ایسی صورتحال میں گیس کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔

اوگرا چئیرمین مسرور خان نے بھی کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ کچھ برسوں سے گیس کے نرخوں کو منجمد رکھا گیا جس کی وجہ سے کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہوگئیں۔

پیٹرولیم سیکریٹری علی رضا بھٹہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اوگرا قوانین میں ترمیم کی گئی تھی اور ریگولیٹر کی طرف گیس کی مقرر کردہ قیمتیں 40 دن مکمل ہونے پر خود بخود نوٹیفائی ہو جائیں گی اور حکومت اسے نہیں روک سکتی۔

انہوں نے کہا کہ گیس کا شعبہ 15 کھرب روپے کے گردشی قرضے تک پہنچ گیا ہے جو کہ اب ایک غیر پائیدار صورتحال ہے۔

مصدق ملک نے کہا کہ حکومت غریبوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی لیکن سب سے زیادہ وہ کراس سبسڈی دے سکتی ہے کیونکہ مقامی گیس کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور درآمد شدہ ایل این جی گیس بہت مہنگی ہے۔

سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ یہ معاملہ بہت چیلنجنگ ہو گیا ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، ان کا خیال تھا کہ گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی اور قیمتوں کے معاملے میں اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے گیس کی قیمت میں اضافے کی منظوری دے دی

انہوں نے کہا کہ گھریلو صارفین سے گیس کی مناسب قیمتیں وصول کی جائیں جبکہ صنعتی یونٹس سے متعلقہ شعبے کے مطابق قیمت وصول کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پر بوجھ کم کرنے کے لیے سی این جی سیکٹر کو خود گیس درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔

تاہم کراچی سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات نے مطالبہ کیا کہ رہائشی گھریلو صارفین کو گیس فراہمی بند کی جائے یا پھر ان سے گیس کی مکمل قیمت وصول کی جائے جس طرح دیگر شعبوں سے لی جاتی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے کہ گھریلو صارفین کو گیس کے سیکٹر میں اولین ترجیح پر رکھا جائے، دنیا کی طرح قدرتی گیس معاشی لحاظ سے فراہم کی جائے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قیادت نے سینیٹ کمیٹی کو صنعتکاروں کی شکایات سے آگاہ کیا جس میں گزشتہ 5 ماہ سے گیس کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔

سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ موجودہ معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ درآمدی اور برآمدی قدر میں فرق ہے اور اس تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے ہمیں مراعات دینے اور اپنی مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

سینیٹ کمیٹی نے متعلقہ قواعد پر بھی تبادلہ خیال کیا جو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ہائی اوکٹین بلینڈنگ کمپونینٹ کی مارکیٹنگ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

مصدق ملک نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن صرف ان مصنوعات کو ریگولیٹ کر رہا ہے جو بڑے پیمانے پر عوام استعمال کرتے ہیں جس طرح آر او این 92 ہے لیکن ایچ او بی سی 97 اس زمرے میں نہیں آتے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی گیس کے نرخ میں 37 فیصد تک اضافے کی تجویز

انہوں نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ پیٹرولیم ڈویژن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ایچ او بی سی سمیت تمام مصنوعات منظور شدہ ضروریات کے مطابق ہوں۔

ایکسپلوزیو ڈپارٹمنٹ کے معاملے پر بات کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی جائیدادیں خاص طور پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو کاروبار کے لیے لیز پر دینے پر پابند کرنے کے حوالے سے ایکسپلوزیو ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کسی فرد پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور محکمہ صرف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پیٹرول پمپس کا لائسنس دیتا ہے۔

سینیٹ کمیٹی نے میٹر ٹیمپرنگ اور زیادہ بل آنے کے معاملے پر عوامی درخواستوں پر بھی غور کیا۔

بعدازاں کمیٹی نے ہدایت کی کہ ریگولیٹر اور کمپنیوں کی مدد کے لیے ایک خودمختار تھرڈ پارٹی کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ سائنسی ذرائع سے چوری کا پتا لگانے کی حقیقت اور منصفانہ فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

Read Comments