Dawn News Television

شائع 25 جون 2022 05:16pm

عدالت کی دفتر خارجہ کو عافیہ صدیقی سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات میں مدد کی ہدایت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت خارجہ کو حکم دیا ہے کہ امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ کی ان سے ملاقات کے لیے امریکی ویزا حاصل کرنے میں سہولت فراہم کی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ صدیقی بازیابی کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ دفتر خارجہ یقینی بنائے کہ امریکا جاتے ہوئے عافیہ صدیقی کی فیملی ہونے کی وجہ سے ان کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وزرات خارجہ کی رپورٹ کے مطابق کونسل جنرل نے ڈاکٹر عافیہ کی قید کی جگہ فیڈرل میڈیکل سنٹر وزٹ کیا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ سمجھتی ہے کہ ان کی فیملی زندہ نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے کوشاں‘

عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ رپورٹ کے مطابق فیڈرل میڈیکل سنٹر کے وارڈن کا کہنا ہے عافیہ صدیقی کال نہ کرنا چاہے تو زبردستی نہیں کرسکتے۔

درخواست گزار وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزرات خارجہ کو ہدایت کریں کہ عافیہ صدیقی کی فیملی کو امریکی ویزہ دلانے میں سہولت فراہم کریں۔

عدالت نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر نے کہا ہم عافیہ صدیقی فیملی کو امریکی ویزہ دلانے میں پوری کوشش کریں گے۔

وزارت خارجہ ڈائریکٹر کے مطابق ہماری کوشش کے باجود بھی ویزے کی گارنٹی نہیں ہے کیونکہ حتمی فیصلہ امریکی حکومت کا ہی ہو گا۔

عدالت نے حکم دیا کہ عدالت میں موجود دفتر خارجہ کا افسر عافیہ صدیقی کی فیملی کو اپنا رابطہ نمبر فراہم کرے گا، دفتر خارجہ عافیہ صدیقی کی فیملی کو امریکی ویزہ کے حصول میں مکمل معاونت فراہم کرے گا۔

پاکستانی نژاد امریکی شہری عافیہ کو 2010 میں ایک امریکی عدالت نے افغانستان میں حراست کے دوران امریکی فوج اور ایف بی آئی کے افسران پر فائرنگ کرنے کے الزام میں مجرم قرار دیا تھا اور انہیں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں جھوٹی اور بے بنیاد نکلیں

ان کی بہن فوزیہ صدیقی نے اکتوبر 2015 میں عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں حکومت سے بہن کی رہائی کے لیے کوششیں مزید بڑھانے اور خاندان کے افراد کے ساتھ ان کی ملاقات کا اہتمام کرانے کی ہدایت کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

عافیہ کے خلاف کیس

عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں اس وقت فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی درخواست کی تھی جب کہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کے لیے دلائل دیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عافیہ صدیقی سے متعلق میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا گیا، ترجمان دفترخارجہ

2009 میں ایک جیوری نے انہیں 7 الزامات پر مجرم قرار دیا تھا جن میں قتل کی کوشش کے 2 الزامات بھی شامل تھے، جیوری نے قرار دیا تھا کہ قتل کی کوشش کے الزامات میں کوئی پیشگی ارادہ نہیں تھا۔

استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ وہ صرف کمرے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں، اس وقت وہ کسی خفیہ جیل میں منتقل کیے جانے کے خوف میں مبتلا تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'عافیہ صدیقی: 'لیڈی القاعدہ' سے 'لیڈی اسلامک اسٹیٹ

عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں امریکی تحویل میں منتقل کر دیا تھا، تاہم امریکی اور پاکستانی حکام دونوں کا دعویٰ ہے کہ اسے افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔

عافیہ صدیقی نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برینڈیز یونیورسٹی سے حیاتیات اور نیورو سائنس میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جب کہ وہ 1991 اور جون 2002 کے درمیان امریکا میں مقیم رہیں، انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہتھیار پکڑنے یا اسلحے کے استعمال سے واقفیت رکھنے سے انکار کیا تھا۔

افغانستان میں دریافت ہونے سے قبل وہ مبینہ طور پر 5 سال تک لاپتا رہی تھیں۔

Read Comments