Dawn News Television

شائع 11 اکتوبر 2022 10:28am

حکومت مخالف مظاہروں پر ایرانی حکام کا کریک ڈاؤن تیز

پولیس کی حراست میں ایک خاتون کی موت سے پیدا ہونے والی بدامنی پر قابو پانے کی کوششیں بڑھاتے ہوئے ایرانی سیکیورٹی فورسز نے کئی کرد شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا، جو کہ سوشل میڈیا پوسٹس اور ویڈیوز سے بھی ظاہر ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ہوئی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اس کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

بی بی سی کے مطابق مہسا امینی کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ مظاہروں میں شامل نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے، ایران کی یونیورسٹیز میں سیکیورٹی فورسز تعینات

عراق کے کردستان کے علاقے میں ان کے کزن عرفان مرتزئی نے کہا کہ 'ہمارے خاندان پر ایرانی کے حکام کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہے، اس لیے ہم ایران سے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں یا چینلز سے بات نہیں کرتے اور نہ ہی بیرونی دنیا میں کسی کو ان کے انتقال کے بارے میں مطلع کرتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے افراد کو ملنے والی دھمکیوں نے ان کی حفاظت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے 'وہ ایران کے تشدد کی زد میں ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے عہدیداروں نے ہمیں انسٹاگرام کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے دھمکیاں دیں اور ایران میں اہل خانہ سے کہا ہے کہ اگر وہ احتجاج میں شامل ہوئے تو انہیں قتل کیا جا سکتا ہے،خود مجھے فون پر بہت سی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر وہ مجھے شہر میں دیکھیں گے تو اغوا کر کے قتل کر دیں گے'۔

ایسے میں کہ جب میں یونیورسٹی کے طلبا نے درجنوں یونیورسٹیوں کی ہڑتال کے ساتھ احتجاج میں اہم کردار ادا کیا، سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ آبادان اور کنگن آئل ریفائنریوں اور بوشہر پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ کے کارکنان نے بھی اس میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی ہلاکت پر مظاہرے جاری، سیکیورٹی فورسز سے پُرتشدد جھڑپیں

اس ضمن میں تیل کی وزارت کے ترجمان نے رائٹرز کی فون کال کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

تیل کے شعبے میں کام کرنے والوں اور بازار کے تاجروں کے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ہڑتالوں نے چار دہائیاں قبل ایرانی انقلاب میں مذہبی علما کو اقتدار تک پہنچانے میں مدد کی تھی۔

دریں اثنا ایرانی حکام نے مہسا امینی کی موت پر مظاہروں کی حمایت کرنے پر علی دائی کا پاسپورٹ ضبط کرنے کے بعد انہیں واپس کردیا جس کی تصدیق ملک کے فٹ بال لیجنڈ نے پیر کے روز کی۔

"بیرون ملک سے واپسی پر، میرا پاسپورٹ تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میرے اہل خانہ اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں پولیس نے ضبط کر لیا،" دائی نے مظاہروں کے آغاز کے بعد میڈیا سے اپنے پہلے تبصرے میں کہا۔

Read Comments