ایران: مہسا امینی کی ہلاکت پر مظاہرے جاری، سیکیورٹی فورسز سے پُرتشدد جھڑپیں

09 اکتوبر 2022
خواتین کی زیر قیادت ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا— فائل فوٹو : اے ایف پی
خواتین کی زیر قیادت ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا— فائل فوٹو : اے ایف پی

ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت پر مظاہرے چوتھے ہفتے میں داخل ہوگئے، اسکول کی طالبات نے نعرے بلند کیے، ملازمین نے ہڑتالیں کیں اور ملک بھر میں مظاہرین کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں 'غیر موزوں لباس' کے باعث گرفتار 22 سالہ ایرانی کرد مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد سے یہ مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔

سرکاری مؤقف ہے کہ تحقیقات کے مطابق مہسا امینی کی موت سر پر چوٹ لگنے کے بجائے کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی جس کا وہ طویل عرصے سے شکار تھیں، تاہم ان کے اہل خانہ نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بالکل صحت مند تھیں۔

خواتین کی زیر قیادت ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا جبکہ دوسری جانب صدر ابراہیم رئیسی نے نئے تعلیمی سال کے موقع پر ایران کی خواتین یونیورسٹی الزہرا میں طالبات کے ساتھ ایک گروپ تصویر کھنچوائی۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے، ایران کی یونیورسٹیز میں سیکیورٹی فورسز تعینات

اوسلو میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) نے کہا کہ اسی کیمپس میں طالبات کو ’ظالم مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے دیکھا گیا۔

صوبہ کردستان میں مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں اسکول کی طالبات نے ’عورت، زندگی، آزادی‘ کا نعرہ لگایا اور سڑکوں پر اسکارف لہراتے ہوئے مارچ کیا۔

کردستان کے دارالحکومت سنندج میں ایک شخص کی لرزہ خیز ویڈیوز بڑے پیمانے پر آن لائن شیئر کی گئیں جسے اپنی گاڑی کے پہیے پر بیٹھے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

صوبے کے سربراہ پولیس علی آزادی نے کہا کہ وہ انقلاب مخالف قوتوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں مشتعل افراد سنندج میں خوف زدہ بسیج ملیشیا کے ایک رکن سے بدلہ لیتے ہوئے اسے گھیر کر بری طرح پیٹتے نظر آئے۔

مزید پڑھیں: مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں کشیدگی کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہیں، سپریم لیڈر

ایک اور چونکا دینے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ مشہد میں ایک نوجوان خاتون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، اس واقعے کو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ندا آغا سلطان کی فوٹیج سےموازنہ کیا جو 2009 میں ہونے والے مظاہروں میں گولی کا نشانہ بن کر موت کے منہ میں جانے کے بعد مزاحمت کی مستقل علامت بن گئی تھیں۔

جلوسوں کو روکنے اور کریک ڈاؤن کی تصاویر کو باہر نکلنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر پابندیوں کے باوجود مظاہرین نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے نئے طریقے اپنالیے ہیں۔

تصدیق شدہ آن لائن تصاویر میں ایران کی مودارس ہائی وے کے اوور پاس پر لگائے گئے ایک بڑے بینر پر لکھا دیکھا گیا کہ ’ہم اب ڈرنے والے نہیں ہیں ہم لڑیں گے‘۔

دوسری فوٹیج میں ایک شخص اسی شاہراہ پر ایک بڑے سرکاری بل بورڈ پر لکھے جملے ’پولیس عوام کے خادم ہیں‘ کو ’پولیس عوام کے قاتل ہیں‘ میں بدلتے ہوئے نظر آیا۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک

ناروے میں قائم کردوں کے حقوق کے گروپ ہینگاو نے کہا کہ کردستان صوبے کے ساقیز، سنندج اور دیواندارریہ سمیت مغربی آذربائیجان کے علاقے مہاباد میں بڑے پیمانے پر ہڑتالیں ہوئیں۔

تہران کے بہت سے محلوں اور اصفہان، کرج، شیراز اور تبریز سمیت دیگر شہروں میں بھی سڑکوں پر مظاہروں کی اطلاع ملی جہاں دکانیں بند کر دی گئیں۔

آئی ایچ آر کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن میں کم از کم 92 مظاہرین مارے جا چکے ہیں، ان ہلاکتوں نے ایران اور مغرب، خاص طور پر اس کے سخت دشمن امریکا کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں