مرد حضرات کا عالمی دن، ’وہ دقیانوسی تصورات جن پر اکثر بات نہیں کی جاتی‘
دنیا بھر میں آج یعنی 19 نومبر کو ’انٹرنیشنل مینز ڈے‘ یا مرد حضرات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد معاشرے میں ان کے مثبت کردار اور ان کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کو اجاگر کرنا ہے جس کے بارے میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں یا معیوب تصور کرتے ہیں۔
مردوں کا عالمی دن منانے کا خیال سب سے پہلے جمہوریہ ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے ہسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر جیروم ٹیلکسنگ نے تجویز کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح خواتین کے مثبت کردار کے فروغ اور ان کے مسائل سے متعلق آواز اٹھانے کے لیے مخصوص دن مقرر ہے اسی طرح مردوں کے حوالے سے مخصوص دن مقرر ہونا چاہیے، جس کے بعد انہوں نے اپنے والد کے سالگرہ کی تاریخ 19 نومبر منتخب کی۔
دنیا بھر میں اس دن کو منانے کا سلسلہ 19 نومبر 1999 سے شروع ہوا، آج بھی بہت کم لوگ بالخصوص مرد ایسے ہیں جنہیں اس دن کے بارے میں معلوم ہے، یہ دن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مرد خود اور اپنے زیر تربیت نوجوانوں کو مرد ہونے کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں، مثبت کردار اور اقدار کے بارے میں آگاہی فراہم کریں تاکہ اچھا معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔
مرد ایک گھر میں باپ، بھائی اور شوہر کا کردار ادا کرتا ہے اور ان سے متعلق مسائل کو اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے، معاشرے میں مردوں سے منسلک کئی ایسے تصورات پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں اکثر بات نہیں کی جاتی۔
مثال کے طور پر معاشرے اور خود مرد حضرات بھی اپنی دماغی صحت سے متعلق بات کرنے سے کتراتے ہیں اور حد سے زیادہ اظہار خیال کرنے پر ان کی حوصلہ شکنی بھی کی جاتی ہے، ان دقیانوسی سوچ کی وجہ سے ایسے مرد حضرات ماہر نفسیات سے مدد طلب کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
مردوں کے اس عالمی دن پر یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ایسے مسائل کو اجاگر کیا جائے جن کے ذریعے ان رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکے، یہاں عورت کے مسائل کا مردوں کے مسائل سے موازنہ کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ ہر جنس دوسرے سے مختلف ہے اور ان کی مسائل بھی مختلف ہوتے ہیں۔
اسی سے متعلق تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بڑھاپے میں تنہائی کا سامنا کر رہی ہے۔
گزشتہ سال انگلش لانگیٹوڈینل اسٹڈی آن ایجنگ کے حالیہ اعداد و شمار کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 2030 تک ایک کروڑ 50 لاکھ بوڑھے مرد تنہا زندگی گزار رہے ہوں گے، جو آج 9 لاکھ سے زیادہ ہے۔
دوسری مثال مردوں کا بطور والد کے کردار کرنے سے متعلق ہے جس میں مرد بطور والد اپنے بچوں کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں پرانے وقتوں کے مقابلے باپ کے کردار میں بھی تبدیلی آئی ہے، باپ کا کردار اب روایتی دقیانوسی تصورات تک محدود نہیں رہا، والد کی پروفیشنل شعبے میں کام کرنے سے لے کر گھر کے اندر بچوں کی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔
لیکن آج بھی معاشرے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر مرد پارک میں بچے کے ساتھ کھیل رہا ہے یا گھر میں بچے کے کپڑے تبدیل کر رہا ہے تو اکثر لوگ اسے معیوب تصور کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ مرد اگر بطور شوہر بیوی کی مدد کرنے کے لیے گھر کے کام میں ہاتھ بٹائے تب بھی کچھ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں، لیکن آج کے جدید دور میں یہ سوچ آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔
یہی نہیں بلکہ اس عالمی دن پر ایسی دقیانوسی سوچ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرد بہت کم روتے ہیں اور کبھی سب کے سامنے رونا پڑ جائے تو ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ خود کو جلدی ٹھیک کرلیں، اسی وجہ سے مردوں کو بچپن سے ہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سخت انداز اور مزاج اپنائے۔
تاہم کبھی کبھار ایسی صورتحال میں مرد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس مرض کی علامات کا انہیں خود کبھی معلوم نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں زیادہ تر مردوں کے خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں چاہیے کہ مرد حضرات کی ضروریات اور ان کے احساسات کا خیال کریں اور ان سے بات چیت کر کے انہیں قائل کریں کہ بحیثیت مرد ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے جذبات چھپائے رکھیں، حالات کا جبر تنہا جھیلتے رہیں۔
ہمیں انہیں قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی پریشانیاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ شیئر کریں اور ان کے اہل خانہ ان کو ان پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے میں بھرپور مدد کریں۔