وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک ٹیرف پر نظرثانی درخواست نیپرا میں جمع کرا دی
وفاقی حکومت نے کےالیکٹرک کے ٹیرف پر نظرثانی درخواست نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں جمع کرا دی۔
وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ پاکستان کا پاور سیکٹر کسی بھی کمپنی، خواہ وہ نجی ہو یا عوامی، کی نااہلی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے فراخدالی سے ٹیرف کے ڈھانچے میں اضافہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری نظر ثانی کی درخواست ذمہ دارانہ انداز میں پاکستان کے بجلی تقسیم کار نظام میں پائیدار اور صحت مندانہ ماحول کے فروغ کے لیےہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاور ڈویژن کو امید ہے کہ نظرثانی کا عمل شفاف اور منصفانہ طریقے سے انجام دیا جائے گا۔
دریں اثنا، وفاقی حکومت کی جانب سے نیپرا میں جمع کرائے گئی نظرثانی درخواست کے اہم نکات سامنے آگئے۔
ڈان نیوز کے مطابق کے الیکٹرک سے متعلق نیپرا کے فیصلوں سے 350 ارب روپے سے زائد کا اضافی مالی بوجھ بنے گا۔
یہ اضافی لاگت کے الیکٹرک صارفین برد داشت کریں گے یا وفاقی حکومت دے گی، پاور ڈویژن کا مؤقف ہے کہ نیپرا نے کےالیکٹرک کو غیر ضروری خصوصی الاؤنسز، منافع اور زیادہ لاگت کی اجازت دی۔
پاور ڈویژن کے مطابق نیپرا نے کے الیکٹرک کو فیول کاسٹ کی مد میں 41 ارب روپے کی اجازت دی، اسی طرح نقصانات کی الاؤنس کی مدد 71 ارب روپے کی اجازت دی۔
پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کے لیے 2 فیصد لا اینڈ آرڈر مارجن میں 99 ارب روپے کی اجازت دی گئی، ناکارہ پلانٹس کی ادائیگیوں کی مد میں 62.5 ارب روپے کی اجازت دی گئی۔
نیپرا نے کے الیکٹرک کو ڈسٹری بیوشن نقصانات کی مد میں 21 ارب روپے کی اجازت دی۔
واضح رہے کہ 28 مئی کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نیپرا نے ایک بڑے پالیسی فیصلے کے تحت کے-الیکٹرک کو اپنے صارفین سے غیر وصول شدہ بلز کی وصولی کو بجلی کے نرخوں میں شامل کرنے کی اجازت دے دی، جو 24-2023 میں 6.75 فیصد کے ریکوری شارٹ فال سے شروع ہو کر 30-2029 تک بتدریج 3.5 فیصد تک کم ہو جائے گا۔
نیپرا نے مالی سال 24-2023 کے لیے کے الیکٹرک کا بنیادی ٹیرف 40 روپے فی یونٹ مقرر کیا، جو 26-2025 کے لیے 10 سرکاری تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے تقریباً 28 روپے فی یونٹ کے قومی اوسط نرخ سے 40 فیصد زیادہ ہے۔
ڈسکوز اور کے الیکٹرک کے نرخوں کے درمیان اس فرق کو وفاقی بجٹ کے ذریعے سبسڈی کی صورت میں ٹیکس دہندگان پر منتقل کیا جاتا ہے، جسے ’ٹیرف ڈیفرنشل سبسڈی‘ کہا جاتا ہے۔
29 مئی کو ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے ریگولیٹری فیصلوں پر ایک غیر معمولی عوامی تبصرے میں کہا تھا کہ ان کی وزارت کو نیپرا کے حالیہ فیصلوں پر سنجیدہ تحفظات ہیں، جو صرف ٹیرف سے متعلق نہیں بلکہ کے الیکٹرک کو جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لیے جاری کردہ لائسنسز سے بھی متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ فیصلے صارفین کے ٹیرف اور یکساں ٹیرف نظام کے تحت وفاقی حکومت کی سبسڈی پر طویل المدتی اثرات ڈال سکتے ہیں، وزارت ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور سپلائی سے متعلق حال ہی میں جاری کردہ فیصلوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے‘۔
وزیر توانائی نے کہا تھا کہ ’اگر ان مخصوص امور کو حل نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف صارفین بلکہ پورے ریگولیٹری نظام پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور پاکستان کی ڈسٹری بیوشن سیکٹر میں نجی شراکت داری کے فروغ کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں‘۔