حکومت کا نیپرا کے ’کے الیکٹرک دوست‘ فیصلوں کو چیلنج کرنے کا عندیہ
وفاقی حکومت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے کے الیکٹرک کے حق میں حالیہ فیصلوں پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عوام، صارفین اور ٹیکس دہندگان کے مفادات کے خلاف قرار دیا ہے اور انہیں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے ریگولیٹری فیصلوں پر ایک غیر معمولی عوامی تبصرے میں کہا ہے کہ ان کی وزارت کو نیپرا کے حالیہ فیصلوں پر سنجیدہ تحفظات ہیں، جو صرف ٹیرف سے متعلق نہیں بلکہ کے الیکٹرک کو جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لیے جاری کردہ لائسنسز سے بھی متعلق ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ ’وزارت نے نیپرا کے متعدد فیصلوں پر سنجیدہ تحفظات کا اظہار کیا ہے جو کےالیکٹرک کو جنریشن، ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور سپلائی کے لائسنس سے متعلق ہیں، ان فیصلوں کا تعلق ملٹی ایئر ٹیرف کی آئندہ مدت کے لیے سرمایہ کاری کے منصوبے سے بھی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ فیصلے صارفین کے ٹیرف اور یکساں ٹیرف نظام کے تحت وفاقی حکومت کی سبسڈی پر طویل المدتی اثرات ڈال سکتے ہیں، وزارت ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور سپلائی سے متعلق حال ہی میں جاری کردہ فیصلوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے‘۔
اویس لغاری نے یاد دلایا کہ کے الیکٹرک کے لیے جنریشن ٹیرف سے متعلق پہلے فیصلے پر دسمبر 2024 میں جمع کروائی گئی نظرثانی درخواست تقریباً 6 ماہ سے نیپرا کی توجہ کی منتظر ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تاخیر توانائی کے شعبے اور اس کی سبسڈی کے لیے سنگین مالی اثرات رکھتی ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق پاور ڈویژن کو نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کے بیس پاور سپلائی ٹیرف میں متعارف کرائے گئے ریکوری لاس بینیفٹ اور ناقابل وصول واجبات کی رائٹ آف کلیمز کے معیار میں تبدیلی پر شدید تحفظات ہیں۔
یہ دونوں اقدامات ٹیرف ڈفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ایس) کی لاگت میں نمایاں اضافے کا سبب سمجھے جا رہے ہیں، جو موجودہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ سے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے 260 ارب روپے رکھی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن نے نیپرا کے سامنے نظرثانی کی درخواست جمع کرانے کی تیاری شروع کر دی ہے تاکہ کےالیکٹرک کی جنریشن، ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن، سپلائی ٹیرف اور لائسنسز سے متعلق متعدد نکات کو چیلنج کیا جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت ڈپریسی ایشن، سرمایہ کاری پر منافع، قرضوں کے سود کی شرح اور قرضوں کے حساب کتاب کے طریقہ کار پر بھی غیر مطمئن ہے، اس کا ماننا ہے کہ مالی اداروں کو کے الیکٹرک کی طرف سے ادا کیا جانے والا سود اصل طور پر شمار ہونا چاہیے تھا، مگر موجودہ ٹیرف میں وہ غیر ضروری حد تک زیادہ لگ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کا مؤقف ہے کہ نیپرا کےحالیہ فیصلوں کے ذریعے کے-الیکٹرک کو غیر معمولی منافع دیا گیا ہے، جو اس کے حق سے زیادہ ہے اور سرکاری سبسڈی کے ذریعے نجی اداروں کو فائدہ پہنچانا درست نہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نجی اداروں کو بہتر کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کرنی چاہیے بصورتِ دیگر نجکاری کے ذریعے عوامی شعبے کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
وزیر توانائی نے کہا کہ ’اگر ان مخصوص امور کو حل نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف صارفین بلکہ پورے ریگولیٹری نظام پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور پاکستان کی ڈسٹری بیوشن سیکٹر میں نجی شراکت داری کے فروغ کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں‘۔
منگل کو نیپرا نے کےالیکٹرک کے لیے 24-2023 کے لیے بیس ٹیرف 40 روپے فی یونٹ مقرر کیا، جو کہ 2024 کے لیے بجلی کی 10 سرکاری تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے اوسط 28 روپے فی یونٹ سے تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔
ڈسکوز کے اوسط ٹیرف اور کےالیکٹرک کے منظور شدہ زیادہ ٹیرف کے درمیان جو فرق (ڈیلٹا) پیدا ہوتا ہے وہ براہِ راست وفاقی بجٹ کے ذریعے ٹیرف ڈفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ائس) کی شکل میں ٹیکس دہندگان پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔
نیپرا نے اپنی فیصلہ سازی میں کے الیکٹرک کے بلوں کی 100 فیصد وصولی کی بنیاد پر طے کردہ پر مبنی ٹیرف میکانزم کو تبدیل کیا اور اس کے بجائے وصولی کے نقصانات ٹیرف میں پورا کرنے کی اجازت دے دی، جو مالی 2024 میں 6.75 فیصد سے شروع ہو کر مالی سال 2030 تک بتدریج 3.5 فیصد تک کم ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈسکوز کا ٹیرف اب بھی بلوں کی 100 فیصد وصولی کی بنیاد پر ہے۔