کاروبار

حکومت نے بجٹ اہداف کو لاحق خطرات کی نشاندہی کردی

معاشی شرح نمو میں معمولی کمی اور مہنگائی میں اضافہ آئندہ بجٹ کے خسارے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتے ہیں، جس سے عوامی مالیات پر شدید دباؤ پڑے گا۔

حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ کئی سنگین معاشی اور مالیاتی خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے، جن میں سست معاشی نمو، مہنگائی اور قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ اور درمیانی مدت کے معاشی منظرنامے کو درپیش متعدد سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے، جن میں ہدف سے کم جی ڈی پی شرح نمو، مہنگائی کے جھٹکے، زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ، آمدنی میں کمی، قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات، سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی ناقص کارکردگی اور غیر متوقع موسمی یا قدرتی آفات شامل ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے پارلیمنٹ میں مالیاتی خطرات سے متعلق پیش کیے گئے ایک تحریری بیان میں ان خطرات کو سات اقسام میں تقسیم کیا ہے، یعنی معاشی، محصولات، قرضے، ریاستی ادارے، ماحولیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور دیگر ممکنہ ذمہ داریاں اور ان کے مالیاتی خسارے پر ممکنہ اثرات کا تخمینہ لگایا ہے۔

آئندہ سال کے دوران اگر ان میں سے کوئی ایک یا زیادہ خطرات سامنے آئے تو ان سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔

بیان کے مطابق معاشی خطرات کا تعلق جی ڈی پی کی سست شرح نمو، مہنگائی کے جھٹکوں اور شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ سے ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر جی ڈی پی کی شرح نمو ایک فیصد پوائنٹ کم ہو جائے تو ٹیکس محصولات میں کمی اور سوشل سیفٹی نیٹ جیسے پروگرامز پر اخراجات میں اضافے کے باعث حکومتی آمدنی متاثر ہو سکتی ہے۔

ہدف سے کم اقتصادی ترقی، مہنگائی کے جھٹکے اور زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ مالیاتی خسارے کو آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کا تقریباً 0.13 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں، یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ایف بی آر کو آئندہ سال کے لیے 14 کھرب 13 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا گیا ہے، جب کہ رواں مالی سال میں 12 کھرب 97 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں ایک کھرب 16 ارب 10 کروڑ روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ مہنگائی میں اچانک اضافہ اور کرنسی کی قدر میں کمی عوامی مالیات پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں، اگرچہ ان اثرات کا درست اندازہ لگانا زیادہ مشکل ہے۔

محصولات کی وصولی میں رکاوٹیں

محصولاتی خطرات کے بارے میں بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کی کم استعداد، سست اقتصادی ترقی اور اہم ذرائع کی کارکردگی میں کمی سے محصولات کی وصولی متاثر ہوسکتی ہے۔

بیان کے مطابق اگر ٹیکس آمدن صرف نصف متوقع شرح سے بڑھی تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

مزید خطرات میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حکومت کو منافع کی منتقلی میں ممکنہ 30 فیصد کمی شامل ہے، جو مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 0.32 فیصد تک بڑھا سکتی ہے، جب کہ پیٹرولیم لیوی کی وصولی میں 20 فیصد کمی خسارے کو مزید 0.2 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔

حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے اسٹیٹ بینک سے 2 کھرب 40 ارب روپے کے منافع کا ہدف مقرر کیا ہے، جو کہ رواں مالی سال کے 2 کھرب 62 ارب روپے کے ہدف سے قدرے کم ہے۔

پیٹرولیم لیوی کا ہدف آئندہ سال کے لیے ایک کھرب 47 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو رواں مالی سال کے ایک کھرب 28 ارب روپے کے ہدف سے زیادہ ہے، تاہم اب تک صرف ایک کھرب 16 ارب روپے وصول ہو سکے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کا غیر یقینی ذرائع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے، اس لیے ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور کمپلائنس کو بہتر بنانا ضروری ہے۔

بیان میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی مالیاتی لحاظ سے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے، اگر اندرونی شرحِ سود میں 2 فیصد اور بیرونی شرحِ سود میں ایک فیصد اضافہ ہو جائے تو سود کی ادائیگیوں میں اضافے سے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.42 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

خسارے میں چلنے والے ادارے

بیان کے مطابق ریاستی ادارے (ایس او ایز) مالیاتی خطرات کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ان کے منافع میں کمی یا حکومتی مدد میں اضافے سے مالیاتی بوجھ بڑھ سکتا ہے، اگر ان اداروں کے منافع میں 6.1 فیصد کمی ہو جائے تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.02 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

اسی طرح، اگر حکومت ان اداروں کو مزید 1.5 فیصد جی ڈی پی کے برابر مالی معاونت فراہم کرے تو مالیاتی خسارہ مزید 0.4 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

زیادہ خطرناک منظرنامے میں قلیل مدتی اثرات نسبتاً کم ہوں گے، لیکن طویل مدت میں موسمیاتی آفات کے تسلسل اور شدت کی وجہ سے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسیوں کا مالی بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔

بیان میں قدرتی آفات کو سب سے بڑا مالیاتی خطرہ قرار دیا گیا ہے، اگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی مخصوص مالیاتی نظام موجود نہ ہو، تو ایک اوسط درجے کی آفت بھی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 1.03 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔

تاہم، اگر حکومت کے پاس انشورنس فنڈز جیسے مؤثر مالیاتی آلات ہوں، تو اس اثر کو کم کرکے 0.44 فیصد تک محدود کیا جاسکتا ہے۔