فیکٹ چیک: سپریم کورٹ نے 27 یوٹیوب چینلز پر پابندی کو غیر آئینی قرار نہیں دیا
بدھ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کئی صارفین نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد کی عدالت کی جانب سے 27 یوٹیوب چینلز پر لگائی گئی پابندی کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے، تاہم حقائق کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ سپریم کورٹ نے نہیں دیا۔
آئی ویری فائی پاکستان کی ٹیم کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان دعوؤں کے بعد ایک فیکٹ چیک شروع کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں درست نہیں ہیں۔
گزشتہ ماہ اسلام آباد کی ایک عدالت نے یوٹیوب کو ہدایت دی تھی کہ وہ حکومت اور مسلح افواج کے خلاف ’جھوٹا، گمراہ کن اور ہتک آمیز‘ مواد پھیلانے پر 27 چینلز کو بلاک کرے۔
ان چینلز میں پی ٹی آئی، مطیع اللہ جان، وجاہت خان، احمد نورانی، اسد علی طور، عمران ریاض، اوریا مقبول جان، صابر شاکر اور معید پیرزادہ سمیت دیگر صحافیوں، سیاسی تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے چینلز شامل ہیں۔
بدھ کو سابق اینکرپرسن صابر شاکر نے ایکس پر دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ نے 27 یوٹیوب چینلز پر پابندی کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔
اس پوسٹ کو 39 ہزار سے زائد بار دیکھا گیا، اسی طرح کئی دوسرے صارفین نے بھی یہی دعویٰ شیئر کیا، جو فیس بک پر بھی وائرل ہوا۔
اصل حقیقت کیا ہے؟
صابر شاکر کی پوسٹ میں جو پریس ریلیز شیئر کی گئی وہ سپریم کورٹ کی نہیں بلکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کی تھی۔
مزید تحقیق پر سینئر کورٹ رپورٹر حسنات ملک کی 9 جولائی کی پوسٹ ملی جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطا نے عدالتِ مجسٹریٹ کے یوٹیوب چینلز بند کرنے کے حکم کو آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ایک آزاد ادارہ ہے جو وکلا کی نمائندگی کرتا ہے اور سپریم کورٹ کا حصہ نہیں، اس کا کام قانون کی حکمرانی اور عوامی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، لیکن اس کے بیانات کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھنا درست نہیں۔
ڈان کے سپریم کورٹ رپورٹر عمر مہتاب نے بھی تصدیق کی کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں دیا اور اگر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنی ہو تو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا لازمی ہے، براہ راست سپریم کورٹ میں نہیں جا سکتا۔
فیکٹ چیک کا نتیجہ: غلط
لہٰذا، یہ دعویٰ کہ سپریم کورٹ نے 27 یوٹیوب چینلز کی پابندی کو غیر آئینی قرار دیا ہے، بالکل غلط ہے۔
دراصل سپریم کورٹ نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا، صرف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس عدالتی حکم پر تنقید کی ہے۔