پاکستان

قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز طلبہ سے خالی کروانے کیلئے پولیس آپریشن، سوشل میڈیا پر شدید تنقید

ہاسٹلز خالی کروانے کے دوران 70 طلبہ کو حراست میں لینے کی اطلاعات، یونیورسٹی انتظامیہ کی درخواست پولیس اسسٹنس مہیا کی، اسلام آباد پولیس کا بیان
|

اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز خالی کرانے کے دوران کچھ طلبہ کو ہاسٹلز سے ’منتقل‘ کیا گیا، جس پر شدید تنقید سامنے آرہی ہیں۔

آج (29 جولائی) کی صبح سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز زیرِ گردش ہیں جن میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز کے باہر موجود ہیں جب کہ کچھ ویڈیوز میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے طلبہ کو گرفتار یا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

ہاسٹلز میں پولیس کارروائی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد ان پر سخت ردعمل بھی سامنے آرہا ہے، سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا کہ طلبہ کے خلاف کارروائی کس بنیاد پر کی گئی، جب کہ اطلاعات کے مطابق 70 سے زائد طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے اپنے ایک بیان میں اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ کی درخواست پر اسلام آباد پولیس کی طرف سے قانونی طور پر پولیس کی معاونت مہیا کی گئی‘۔

پولیس کے مطابق ’طلبہ 11 ہاسٹل خالی کرچکے تھے جب کہ باقی 4 ہاسٹلز کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان ہاسٹلز میں کچھ طلبہ یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر بھی خالی نہیں کررہے اور غیر قانونی طور پر مقیم ہیں‘۔

کپیٹل پولیس نے مزید بتایا کہ ’قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ کی تحریری درخواست پر یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکیورٹی گارڈز کی مدد کی گئی، جن طلبہ نے اس پُر امن عمل میں مزاحمت کی، ان کو ہاسٹل سے منتقل کیا گیا، اب یونیورسٹی انتظامیہ کی تحریری درخواست پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ کہ ضلعی انتظامیہ نے مقررہ مدت ختم ہونےکے بعد آج صبح ہاسٹلز خالی کرانے کے لیےکارروائی کی۔

انتطامیہ کے مطابق ’قائداعظم یونیورسٹی نےگرمیوں کی تعطیلات کے دوران سالانہ مرمت اور تزئین و آرائش کے پیش نظر 13 جولائی 2025 سے اپنے ہاسٹلز کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

بیان میں بتایا گیا کہ بڑی تعداد میں طلبہ نے اس فیصلے پر عمل کیا اور ہاسٹلز خالی کیے، تاہم کچھ طلبہ اب بھی وہاں موجود تھے جنہیں یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بارہا ہاسٹلز خالی کرنے کے لیے وقت دیا گیا تھا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے طلبہ کی جانب سے انتظامی فیصلے کو چیلنج کرنے کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دی، عدالت نے یونیورسٹی کے خودمختاری کے حق کو قائداعظم یونیورسٹی ایکٹ 1973 کے تحت تسلیم کیا ہے۔

انتظامیہ کا مزیدکہنا تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی ایک بار پھر طلبہ کو محفوظ اور تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے، ساتھ ہی نظم و ضبط، تعلیمی معیار اور ادارہ جاتی خودمختاری کو برقرار رکھے گی۔

پولیس کے بیان کو چیلنج کرتے ہوئے انسانی حقوق کی وکیل ایمان زینب مزاری نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ کس قانون کے تحت سیکرٹریٹ تھانے پر تالے لگائے گئے؟ ہماری وائس چانسلر سے ابھی میٹنگ ہوئی ہے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی درخواست نہیں دی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ 70 سے زائد طلبہ کو بغیر کسی ایف آئی آر کے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے اور حکام ایف آئی آر کی نقل دینے سے انکار کر رہے ہیں۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے پولیس کے کریک ڈاؤن کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 40 طلبہ کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ امتحانات کی تیاری کے لیے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت مانگ رہے تھے، انہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، جامعات سول سوسائٹی کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔

ماہر تعلیم اور سرگرم کارکن ڈاکٹر تیمور رحمٰن نے کہا کہ طلبہ سمر سمسٹر شروع کرنے کے لیے احتجاج کر رہے تھے، سوچیں انہیں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔

فنکار، ماحولیاتی کارکن اور سماجی رہنما ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے واقعے کے اوپر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ ’پاکستان کی جامعات اپنے ہی طلبہ کے خلاف ہو گئیں، اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے 70 طلبہ کو صرف اس مطالبے پر گرفتار کیا گیا کہ ہاسٹلز گرمیوں میں بھی کھلے رکھے جائیں، ہمارے طلبہ اور کیمپس کو محفوظ بنائیں۔

سابق وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی اس واقعے کی ایکس پر شدید الفاظ میں مذمت کی۔

واضح رہے کہ ستمبر 2024 میں یونیورسٹی میں دو گروپس کے درمیان جھگڑے میں 25 طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔

قائداعظم یونیورسٹی (جسے پہلے اسلام آباد یونیورسٹی کہا جاتا تھا) جولائی 1967 میں نیشنل اسمبلی کے ایک ایکٹ کے تحت قائم ہوئی تھی اور یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگرامز سے تدریس و تحقیق کا آغاز کیا تھا، بعد ازاں قائداعظم یونیورسٹی میں ماسٹرز، گریجویٹ اور انڈرگریجویٹ پروگرامز بھی شروع کیے گئے۔