چین اور بھارت کے درمیان تعلقات میں نیا موڑ، کیا پاکستان کو فکرمند ہونا چاہیے؟
چینی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی جغرافیائی سیاست اور بین الاقوامی سیاست کے درمیان جنوبی ایشیا کا دورہ کیا۔ ان کے بھارت، پاکستان اور افغانستان کے دورے نے اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت کے کھیل میں چین کے اہم کردار کو مزید تقویت دی۔
جہاں اس دورے نے پاکستان کے ساتھ چین کے قریبی تزویراتی تعلقات کی توثیق کی وہیں وانگ ژی کے دورہ بھارت نے بھی نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی نشاندہی کی جبکہ کابل کے دورے نے علاقائی تعاون اور روابط کے لیے بیجنگ کی کوششوں کو اجاگر کیا۔
یہ دورہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع کے پیش نظر زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ جبکہ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف جنگ کی وجہ سے واشنگٹن کے ساتھ نئی دہلی کے اسٹریٹجک تعلقات میں خراب ہورہے ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت نے علاقائی طاقت کے محاذ کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا ہے اور کثیر قطبی عالمی نظام کو آگے بڑھانے میں چین کے مرکزی کردار کو نمایاں کیا ہے۔ ایک بڑے عالمی سرمایہ کار اور تجارتی شراکت دار ہونے کی حیثیت سے یہ عالمی تجارت کو نئی شکل دے رہا ہے۔
اگرچہ وانگ ژی نے پاک بھارت حالیہ تنازع کے بارے میں کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا لیکن انہوں نے علاقائی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ چین کی شراکت داری میں ’کسی تیسرے فریق کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی وہ کسی تیسرے فریق سے متاثر ہوئے‘۔ چینی وزیر خارجہ نے پاک چین تعلقات کی ’مضبوطی‘ پر زور دیتے ہوئے اسلام آباد کو اپنے جنوبی ایشیا کے دورے کا ’سب سے اہم پڑاؤ‘ قرار دیا۔
اسلام آباد میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران چینی وزیر خارجہ نے پاک-چین اسٹریٹجک اجلاس کی قیادت کی جبکہ اس اجلاس میں پاکستان کی عوامی اور عسکری اعلیٰ قیادت نے بھی شرکت کی۔ اس بات چیت میں دونوں ممالک کے تعلقات کے تمام زاویوں کا جائزہ لیا گیا جس میں دفاعی روابط اور اقتصادی تعاون پر بات کی گئی۔ دفاع میں قریبی تعاون پاک-چین طویل مدتی شراکت داری کا خاصہ ہے جبکہ اقتصادی تعاون بھی اس میں مساوی اہمیت کا حامل ہے۔
جہاں 4 روزہ تنازع میں پاکستان کی بھارت کے خلاف کامیابی چین کے ساتھ تعاون کی مرہونِ منت تھی وہیں ہر طرح کے حالات میں پاکستان کا ساتھ دینے کی چینی پالیسی نے بھی پاکستان کی مالی مدد کی۔ سی پیک کے تحت چین اپنے اربوں ڈالر کے منصوبوں کے ساتھ پاکستان میں سب سے بڑا سرمایہ کار بن گیا۔ اسلام آباد میں بیٹھک میں سی پیک کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا جس میں اس منصوبے کا دائرہ زراعت، کان کنی اور صنعتی پیداوار تک وسیع کیا گیا۔
اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان گرمجوشی اور ان کے درمیان بڑھتے ہوئے سیکیورٹی تعاون پر بیجنگ میں کچھ سوالات اٹھ سکتے ہیں لیکن اس کے چین اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک اتحاد پر اثر انداز ہونے کے آثار نظر نہیں آئے۔
اگرچہ چین امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ میں ہے لیکن یہ چین کے لیے جیت یا ہار کی صورت حال نہیں ہے۔ جون میں وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ مشہور ظہرانے کے فوراً بعد، آرمی چیف بیجنگ گئے تھے جہاں علاقائی اور عالمی سیاسی منظر نامے کی پیش رفت پر بات چیت ایجنڈے میں شامل تھی۔
گمان ہوتا ہے کہ بیجنگ میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان لین دین کے تعلقات کی نئی نوعیت کے بارے میں ایک واضح فہم پایا جاتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس سے پاکستان کے ساتھ اس کی اسٹریٹجک شراکت داری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ان دونوں تعلقات کو متوازی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا کے طاقتور ترین ملک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا انتہائی مفید ہے لیکن ٹرمپ کی بے صبری اور غیر متوقع پالیسی کے پیش نظر ’معاشی سودوں‘ کے بارے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔
تاہم پاک-چین تعلقات میں کچھ مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بیجنگ کے لیے ایک بڑی تشویش سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور پاکستانی ریاست سے لڑنے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سی پیک کے مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنانا ہے۔ چینی حکام اکثر عوامی سطح پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
سیکیورٹی خدشات کو دور کرنا انتہائی اہم ہے، خاص طور پر جب سی پیک کے اگلے مرحلے پر بات چیت کی جارہی ہے۔ پاکستان میں چین کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو وسعت دینے کی بڑی صلاحیت موجود ہے لیکن اس کے لیے واضح اور طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔
پاکستان آمد سے قبل چینی وزیر خارجہ نے تین دن نئی دہلی میں اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقاتوں میں گزارے۔ دنیا کی دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے دوران یہ تین سال میں کسی اعلیٰ چینی سفارت کار کا بھارت کا پہلا دورہ تھا۔ بھارتی مؤقف میں یہ تبدیلی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ٹیرف کے معاملے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے بعد آئی ہے۔
جبکہ بھارت اور امریکا اتحادیوں کے درمیان کشیدگی نے ایک سخت رخ اختیار کر لیا ہے کہ جہاں ٹرمپ نے بھارت کی تمام برآمدات پر 50 فیصد امریکی ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ بھارت اب ان ممالک میں شامل ہے جہاں امریکی ٹیرف کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت پر ٹیرف کا 25 فیصد روسی تیل کی درآمد پر لگایا گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے غصے کے پیچھے دیگر سیاسی وجوہات بھی ہیں جن میں بھارت کا پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں ثالثی کے لیے امریکا کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار بھی شامل ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ اس کے کئی دہائیوں پر محیط اتحاد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جوکہ بھارت کے لیے ایک بڑا جغرافیائی سیاسی دھچکا ہے۔ بھارت، امریکا کی قیادت میں چین مخالف اتحاد میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ گزشتہ امریکی انتظامیہ نے بھارت کو چین کے مقابل کے طور پر پیش کیا تھا۔
نئی دہلی اب اپنے حریف کے ساتھ کشیدگی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرکے اپنی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ترتیب دینے پر کام کررہا ہے۔ چینی وزیر کے بھارت آنے سے پہلے، بھارتی وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔
پروٹوکول کو ایک طرف رکھتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر خارجہ وانگ ژی سے ملاقات کی اور اس ماہ کے آخر میں چین میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی قبول کی۔ یہ 7 برس میں بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ چین ہوگا۔ اسے 2020ء میں مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے الحاق کے فوراً بعد بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سربراہی اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی شرکت کریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کانفرنس عالمی رہنماؤں کو پس پردہ ملاقاتیں کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات متوقع ہے جس میں پیوٹن بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ عالمی سیاست کے بدلتے کھیل کے پیشِ نظر شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے 20 سے زائد ممالک کی شرکت کے ساتھ، اس اجلاس کو عالمی عدم استحکام کے دور میں ترقی پذیر ممالک (گلوبل ساؤتھ) کے درمیان اتحاد کی مضبوط نمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔ لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
