لاہور جنرل ہسپتال سے اغوا کیا گیا نوزائیدہ بچہ بازیاب، 2 اغوا کار خواتین گرفتار
لاہور جنرل ہسپتال سے نقاب پوش خواتین کی جانب سے اغوا کیے گئے نوزائیدہ بچے کو بازیاب کروا لیا گیا، پولیس نے 48 گھنٹوں کے دوران تقریباً 10 کلومیٹر کے دائرے میں نصب 500 سے زائد نجی اور سیف سٹی کے سرویلنس کیمروں کی جانچ پڑتال کے بعد بچے کو بایازب کروایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کاہنہ کی رہائشی خاتون نے تقریباً 10 سال بعد بیٹے کو جنم دیا تھا، بیٹے کے لیبر روم سے اغوا ہونے کی اطلاع ملنے پر وہ شدید صدمے سے دوچار ہوگئی تھیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز فیصل کامران نے بچے کی بازیابی کے لیے ماڈل ٹاؤن ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کوٹ لکھپت اور تفتیشی افسران کو تعینات کیا تھا۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ خواتین نے بظاہر ہسپتال کے اس نظام کی خامیوں سے فائدہ اٹھایا، جو نوزائیدہ بچوں کو والدین کے حوالے کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق لیبر روم، زچگی وارڈ اور نیونیٹل یونٹ میں پیدائش کے بعد ماں اور نوزائیدہ کے درمیان علیحدگی کا تفصیلی نظام موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین نے نہ صرف ہسپتال کی سیکیورٹی کو توڑا بلکہ اعلیٰ انتظامیہ کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین ملزمان نے پولیس کو بھی چکمہ دینے کی کوشش کی، وہ بار بار راستے بدلتی رہیں اور مختلف گاڑیاں (رکشہ) استعمال کر کے اپنے ٹھکانے تک پہنچیں۔
اغوا کے فوراً بعد خواتین نے ایک رکشہ کرائے پر لیا، پھر ایک مقام پر اُسے چھوڑ کر دوسرا رکشہ لیا اور کچھ فاصلہ طے کیا، اس مقام سے وہ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چلیں اور اردگرد کے حالات کا جائزہ لیتی رہیں، بعد ازاں انہوں نے ایک اور رکشہ لیا اور کاماہاں کے ایک گھر پہنچ گئیں، جو لاہور جنرل ہسپتال سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
پولیس افسر نے کہا کہ ابتدائی جائزے کے بعد متعدد ٹیموں کو اغوا کے کیس پر کام سونپا گیا اور اندازہ لگایا گیا کہ اگوا کار خواتین ہسپتال سے نکلنے کے لیے 3 ممکنہ راستے استعمال کر سکتی ہیں۔
ان کے مطابق نوزائیدہ بچے کی بازیابی میں سیف سٹی اتھارٹی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں ہم نے 500 سے زائد نجی کیمروں اور سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کا جائزہ لیا، آخرکار، سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکار ایک ایسے گھر تک پہنچ گئے، جہاں خواتین بچے کے ساتھ داخل ہوئی تھیں، وہاں سے نوزائیدہ کو بازیاب کروا کر دونوں خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں افسر نے کہا کہ پولیس خواتین سے تفتیش کر رہی ہے کہ انہوں نے بچہ کس طرح اغوا کیا، ایسا لگتا ہے کہ خواتین نے یا تو نچلے عملے کو رشوت دی یا ہسپتال کے نظام کی خامیوں کا فائدہ اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ گائڈ لائنز کے مطابق بچے کو والدین یا دیگر قریبی رشتہ داروں کے حوالے کرنے سے پہلے، سرکاری ریکارڈ میں ان کے انگوٹھے کے نشانات لیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس واردات کے وقت زچگی ایمرجنسی وارڈ میں تعینات عملے کی بھی تفتیش کرے گی۔
بعد میں ماڈل ٹاؤن ڈویژن کے تفتیشی ایس پی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اغوا کرنے والی خواتین میں سے ایک شادی شدہ مگر بے اولاد تھی، وہ گھریلو مسائل کا شکار تھی اور اپنے ازدواجی تعلق کو محفوظ بنانے کے لیے بچے کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔