وزیراعظم کا ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی لگانے کا اعلان، ملک مخالف پروپیگنڈے کے خاتمے کا عزم
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پالیسی بنانے کی ہدایت کردی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ریلیف آپریشن جاری ہے، دعا ہے سندھ میں سیلاب سے زیادہ نقصان نہ ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم افواج پاکستان کی قربانیوں کی بدولت آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اداروں اور شہدا کی تضحیک کر رہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے فتنے کا مکمل خاتمہ کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بہادر میجر عدنان اسلم بنوں میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے، گزشتہ روز جی ایچ کیو میں ان کی نماز جنازہ میں کل ہم شریک ہوئے، سپہ سالار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نماز جنازہ کے دوران ہماری شہید کے خاندان کے افراد سے ملاقات ہوئی، ان کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے نے شہادت دی ہے جس پر مجھے بہت فخر ہے، ان کے سسر بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ میرے داماد نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ شہید کی بہنوں نے مجھے بتایا کہ ہم ایک بہت دلیر بھائی کی بہنیں ہیں، ہمارے بھائی نے عظیم راہ میں قربانی دی ہے اور ہم بھی اسی راہ میں قربانی دیں گے، یہ وہ جذبہ ہے جس کی ایک مثال میں نے یہاں پیش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف میجر عدنان نہیں بلکہ کئی سپاہی، لانس نائیک، میجر، کرنل اور دیگر نے اپنی قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، وہ پاکستان کے دشمنوں سے لڑ رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ جو معرکہ ہوا جس میں میجر عدنان نے اپنی جان کی قربانی دی، جو توپ اور بندوق کے آگے کھڑا ہوتا ہے اس کی کیفیت کو کوئی نہیں جان سکتا اور اس کے نتیجے میں ہم نہ صرف اپنی افواج پاکستان کے شکر گزار ہیں بلکہ ان قربانیوں کی بدولت ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ملک کے اندر زہریلا پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر شہدا کی قربانیوں اور اداروں کی تضحیک کر رہے ہیں، اس کی جتنی سخت الفاظ میں مذمت کی جائے وہ ناکافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی جذبہ ہے جو پاکستان کو خوارج سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہے، وہ اپنے ماں باپ اور بچوں کو یہ بتاکر جاتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کے دفاع کے لیے جارہے ہیں تو ان کی بیویوں اور بچوں کی کیفیت کو سمجھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا آج فرض اولین ہے کہ ہم اس ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے فتنہ کا مکمل طور پر خاتمہ کریں، چاہے وہ ملک میں ہوں یا پھر سوشل میڈیا پر بیرون ملک بیٹھے آپریٹ کر رہے ہیں، ان کی شناخت کریں، نفرت کارڈ ناقابل قبول ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں ابھی چین کے دورے سے ہوکر آیا ہوں، اس ضمن میں کہنا چاہتا ہوں کہ چین میں ہماری جو حالیہ بزنس کانفرنس ہوئی، اس سے بہتر کانفرنس میں نے کبھی نہیں دیکھی جس پر تمام وزرا، سیکریٹریز اور افسران کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں فالو اپ انتہائی ضروری ہے، اور میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی یا کسی منصوبے میں کوئی تاخیر برداشت نہیں کروں گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بھی بنانے ہیں اور چین کے ساتھ جو اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے اس میں بھی مزید بہتر کرنا ہے جب کہ امریکی کمپنیوں کے ساتھ معدنیات کے شعبے میں معاہدے ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب نے پنجاب، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں بہت تباہی مچائی ہے اور اب پانی سندھ میں داخل ہورہا ہے، موسمیاتی چیلنجز کے حوالے سے وزیر اور ان کے سیکریٹری کی ذمہ داری لگائی ہے کہ آپ نے ایک پروگرام کے ساتھ آنا ہے، راتوں رات موسمیاتی تبدیلیوں کو ہم راتوں رات نہیں نمٹ سکتے اور اس میں پاکستان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، سب کو مل کر کرنا ہوگا لیکن ہمارے پاس ایک روڈ میپ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ذراعت میں جو نقصان ہوا ہے اس کے لیے میں نے ذمہ داری لگائی ہے، اگلے ہفتے ہی سامنے آجائے گا کہ چاول، گنا، کاٹن میں کیا نقصانات ہوئے ہیں، اس حوالے سے اگلے اجلاس میں تفصیلات بھی پیش کروں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج کابینہ مشاورت کے بعد ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان کر رہی ہے اور ساتھ ہی احسن اقبال کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے، جس میں متعلقہ وزرا اور سیکریٹریز ہوں گے، تاکہ اس پر کام شروع کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں وفاق اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے، وہی صوبوں کو بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، مل کر ہی ہم اس نقصان کا ازالہ کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کل قطر میں اسرائیل نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ایک قطر پر جو حملہ کیا، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔