پاکستان

فیکٹ چیک: پانی میں گھرے،لکڑی کے ڈھیر پر سوتے بچوں کی تصویر پانچ سال پرانی ہے

ایکس پر متعدد صارفین، جن میں پی ٹی آئی کے حامی بھی شامل تھے، نے بچوں کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ پانی سے گھرے ہوئے لکڑیوں کے ڈھیر پر لیٹے دکھائی دے رہے تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ پنجاب میں سیلاب متاثرین ہیں

جمعرات کو ایکس پر متعدد صارفین، جن میں پی ٹی آئی کے حامی بھی شامل تھے، نے بچوں کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ پانی سے گھرے ہوئے لکڑیوں کے ڈھیر پر لیٹے دکھائی دے رہے تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ پنجاب میں سیلاب متاثرین ہیں۔

آئی ویریفائی پاکستان کی ٹیم کی جانب سے کی گئی جانچ پڑتال کے دوران پتا چلا کہ یہ تصویر پانچ سال پرانی ہے۔

پاکستان اس سال اگست میں شدید سیلاب کی لپیٹ میں آیا جس میں اب تک 842 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، 12 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، 40 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں (زیادہ تر پنجاب میں)، اور اب تک چھ سے 10 ارب ڈالر کے معاشی نقصانات کا خطرہ ہے۔

اس وقت جنوبی پنجاب بدترین سیلابی بحران سے دوچار ہے جہاں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان جیسے اضلاع زیرِ آب ہیں، لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں اور 1,400 دیہات پانچ سے 10 فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

دعویٰ

جمعرات کو دو بچوں کی ایک تصویر جس میں وہ لکڑی اور ملبے کے ڈھیر پر پانی کے درمیان لیٹے ہوئے ہیں، ایک تصدیق شدہ ایکس اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی، جو پچھلی پوسٹس کے مطابق بظاہر پیپلز پارٹی کے ایک حامی کا ہے۔

پوسٹ کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ’ تم نے ہمیں ہمارے خوشحال دور میں دیکھنا تھا، ہمارے اپنے گھر تھے اور اپنے پیارے۔’ اس کے ساتھ ’ سرائیکی لائفز میٹر’ ، ’سرائیکی وسیب فلڈ‘ اور ’سیو سرائیکی وسیب‘ کے ہیش ٹیگز تھے۔

سرائیکی زبان بنیادی طور پر جنوبی پنجاب میں بولی جاتی ہے۔

یہ پوسٹ 1,313 بار دیکھی گئی لیکن تصویر تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

یوٹیوبر اور سابق اینکر عمران ریاض خان نے بھی یہ تصویر ایک ٹوٹے دل کے ایموجی کے ساتھ شیئر کی، ان کی پوسٹ کو تقریباً 66 ہزار ویوز ملے اور دو ہزار سے زیادہ بار ری شیئر کیا گیا۔

یہ تصویر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی شیئر کی جیسا کہ یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے، جس پر مجموعی طور پر 17 ہزار سے زیادہ ویوز آئے۔

فیکٹ چیک

اس تصویر کی سچائی جانچنے کے لیے ایک فیکٹ چیک شروع کیا گیا کیونکہ یہ سیلاب اور ان کے نقصانات کے حوالے سے عوامی دلچسپی کا اہم موضوع بن گیا تھا۔

ریورس امیج سرچ سے یہ تصویر روزنامہ جنگ کی 7 ستمبر 2020 کی رپورٹ میں ملی جس کی سرخی تھی کہ ’ بارش اور سیلابی آفات: 6 لاکھ 67 ہزار افراد بے گھر، 14 ہلاک، 4,800 دیہات عمرکوٹ میں زیرِ آب۔’

عمرکوٹ سندھ کا ایک شہر ہے اور اس خبر میں 2020 کے تباہ کن سیلاب سے وہاں ہونے والی تباہی کا احوال درج تھا۔

یہ تصویر ریڈیو پاکستان کی 26 اگست 2022 کی خبر میں بھی ملی جس کا عنوان تھا کہ ’ وفاقی کابینہ کے ارکان، پاک فوج کے افسران نے سیلاب فنڈ کے لیے ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کر دی۔’

تاہم کسی بھی خبر نے اس تصویر کے مقام یا فوٹوگرافر کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی۔

یہ تصویر 2020 اور 2022 کے سیلابوں کے دوران ایکس، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک پر بھی شیئر کی گئی جیسا کہ یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ گزشتہ ماہ بھی شیئر ہوئی جب خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں سیلاب آیا اور سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ وہاں کی مناظر ہیں، جیسا کہ یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

تصویر کے اصل مقام اور وقت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکا، جبکہ صارفین تبصروں میں کبھی سندھ، کبھی پنجاب اور کبھی افغانستان کا دعویٰ کرتے رہے۔

تاہم یہ حقیقت کہ ایک میڈیا ادارے نے یہ تصویر 2020 میں شیئر کی تھی، واضح طور پر دکھاتی ہے کہ یہ 2025 کے سیلاب کی نہیں ہے۔

نتیجہ: گُمراہ کن

لہٰذا فیکٹ چیک سے یہ نتیجہ نکلا کہ پنجاب میں حالیہ سیلاب متاثرین کی تصویر کا دعویٰ غلط ہے، یہ تصویر کئی سالوں سے پاکستان میں مختلف سیلابوں کے حوالے سے شیئر ہوتی رہی ہے اور کم از کم 2020 جتنی پرانی ہے جب ایک میڈیا ادارے نے اسے سندھ کے حوالے سے شیئر کیا تھا۔