اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہری اسامہ خلجی کی جانب سے ایڈووکیٹ اسد لادھا کے وساطت سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست منظور کرلی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے محفوظ کیا فیصلہ آج جاری کر دیا، جسٹس بابر ستار نے 99 صفحات پر فیصلہ تحریر کیا۔
یہ فیصلہ جسٹس بابر ستار نے اُس مقدمے میں سنایا جو 2023 میں ڈیجیٹل رائٹس کے کارکن اسامہ خلجی نے پی ٹی اے کے ممبر (ایڈمنسٹریشن) کی تقرری کے خلاف دائر کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عدالت نے ابتدائی طور پر درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ تقرری کا عمل آگے نہ بڑھایا جائے۔
بعد میں حکومت نے اس حکم کے خلاف اپیل دائر کی، جسے جزوی طور پر منظور کر لیا گیا، عدالت نے بھرتی کا عمل تو جاری رکھنے کی اجازت دی لیکن واضح کر دیا کہ کوئی بھی تقرری کیس کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔
عدالت کو بتایا گیا کہمیجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن کو پہلے ممبر (ایڈمنسٹریشن) اور پھر پی ٹی اے چیئرمین تعینات کر دیا گیا ہے۔
جسٹس ستار نے اپنے فیصلے میں لکھا ’ممبر (ایڈمنسٹریشن) کے عہدے کے قیام، اس کی اہلیت اور معیار طے کرنے اور بھرتی کے عمل کے دوران شفافیت اور قانونی ساکھ کا فقدان رہا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سلیکشن کمیٹی کی جانب سے 3 افراد کے پینل کی سفارش رولز کے منافی تھی کیونکہ پی ٹی اے کی تقرری کے رول 4 (4) کے مطابق صرف ایک امیدوار کی سفارش کی جا سکتی تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کا یہ فیصلہ کہ سفارش کردہ پینل میں سے میرٹ لسٹ میں سب سے نیچے شامل امیدوار کو منتخب کیا جائے، کسی معقول جواز یا قانونی بنیاد سے خالی تھا اور جنرل کلازز ایکٹ 1897 کی دفعہ 24 اے کے تحت حکومت پر عائد ذمہ داری کی خلاف ورزی تھی، جو اسے منصفانہ اور معقول انداز میں عمل کرنے کا پابند کرتی ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اسی طرح، ممبر (ایڈمنسٹریشن) بنائے جانے کے بعد بغیر کسی شفاف اور معروضی عمل کے اور بغیر کسی وجہ ریکارڈ کیے انہیں چیئرمین پی ٹی اے تعینات کرنا بھی غیر قانونی، غیر منطقی اور قانون کی نظر میں ناقابلِ برقرار ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ممبر (ایڈمنسٹریشن) کے عہدے کو پُر کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات قانونی حیثیت نہیں رکھتے اور ان کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلے میں لکھا ’چونکہ یہ تمام عمل غیر قانونی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا، اس لیے اس پر کھڑا پورا ڈھانچہ بھی گر جاتا ہے، اس لیے اشتہار، بھرتی کا عمل اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تمام تقرریاں، بشمول میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن کو ممبر (ایڈمنسٹریشن) اور چیئرمین پی ٹی اے مقرر کرنا، سب غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے حکم دیا کہ چونکہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن کی تقرری ایک غیر آئینی اور غیر قانونی بھرتی کے عمل کا نتیجہ تھیں، لہٰذا وہ فوری طور پر عہدہ چھوڑ دیں۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ پی ٹی اے کا سب سے سینئر موجودہ ممبر عارضی طور پر چیئرمین کا چارج سنبھالے گا، جب تک کہ وفاقی حکومت باقاعدہ چیئرمین تعینات نہیں کر دیتی۔