کراچی: مین ہول کی صفائی کے دوران دم گھٹنے سے 3 مزدور جان کی بازی ہار گئے
ایدھی حکام نے بتایا ہے کہ کراچی کے علاقے گارڈن عثمان آباد میں اتوار کو ایک مین ہول صاف کرتے ہوئے صفائی کے عملے کے 3 افراد مین ہول میں گر کر جاں بحق ہوگئے۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں اکثر کھلے نالوں اور مین ہولز میں گرنے سے ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں، کراچی جہاں نکاسی آب کا ناقص نظام، ٹوٹے یا غائب ڈھکن اور گنجان آبادی والے علاقوں میں ناکافی روشنی شہریوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں، یہ نالے زہریلے گندے پانی سے بھرے ہوتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے، جس کے باعث چند ہی منٹوں میں دم گھٹنا یا ڈوب کر مر جانا آسان ہو جاتا ہے۔
ایدھی کے بیان کے مطابق 4 افراد صدیق وہاب روڈ کے قریب مین ہول صاف کرتے ہوئے اس میں گر گئے، جن میں سے 3 جان کی بازی ہار گئے جب کہ ایک بے ہوش ہے۔
مرنے والوں کی شناخت 22 سالہ وِشال، 19 سالہ شہیر اور 42 سالہ جارج کے طور پر ہوئی ہے، چوتھے شخص کو سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا، جب کہ لاشوں کو ایدھی کے مردہ خانے میں رکھا گیا ہے۔
اس سے قبل جمعہ کے روز فیصل آباد میں ایک مویشی فارم کے زیرِ زمین سیپٹک ٹینک میں دم گھٹنے سے صفائی کرنے والے 3 نجی کارکن بھی زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔
11 ستمبر کو کراچی میں پورٹ قاسم پر ایک کمپنی کے زیرِ زمین ٹینک کی صفائی کے دوران زہریلی گیسوں سے متاثر ہو کر 2 صفائی کے کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔
پولیس اور ریسکیو حکام کے مطابق جون میں بھی کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں 5 افراد اسی طرح کے حالات میں زیرِ زمین واٹر ٹینک صاف کرتے ہوئے جاں بحق ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ ملک میں صفائی ستھرائی پر مامور عملہ حفاظتی اقدامات کیے بغیر ہی اپنے فرائض انجام دیتا دکھائی دیتا ہے۔
لاکھوں افراد پاکستان میں نجی و سرکاری دفاتر سمیت گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں، محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر طرح کے سینیٹری ورکرز، سوئپرز، کلینرز، سیور مینز اور گھروں میں صفائی و ستھرائی کا کام کرنے والے ورکرز کی تعداد 15 لاکھ تک ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ہوم بیسڈ اور فارمل جاب کرنے والے ورکرز کی تعداد 12 لاکھ تک ہے۔