اپٹما نے بجلی کی پیداوار کیلئے حکومت کا ’غیر حقیقی‘ منصوبہ مسترد کر دیا
پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی تنظیم، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت کے اس ہدف پر سوال اٹھایا ہے کہ 2025 سے 2035 کے دوران بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 50 فیصد اضافہ کر کے اسے 64 ہزار میگاواٹ تک لے جایا جائے، اپٹما نے اس ہدف کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے تقریباً 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی جو ’مہنگی بجلی‘ کو مستقل بنا دے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپٹما نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو اپنے تفصیلی اعتراضات میں کہا ہے کہ بجلی کی طلب میں اضافے کے تخمینے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، جو آبادی اور جی ڈی پی کی شرح نمو کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں، مگر ملک اور توانائی کے شعبے کی بدلتی زمینی حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
تنظیم نے کہا کہ اسے ’طلب کے اندازے کے طریقہ کار پر بنیادی اعتراض ہے، جو پورے منصوبے کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے‘۔
اپٹما نے مطالبہ کیا کہ توانائی منصوبہ بندی کو حقیقی معیشت کے حالات اور صارفین کے لیے سستی اور مسابقتی ٹیرف کی اہم ضرورت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے وسیع تر ترجیحات کو اشاریہ جاتی پیداوار صلاحیت توسیعی منصوبے (آئی جی سی ای پی 35-2025) میں شامل کیا جائے۔
تنظیم نے کہا کہ ’آئی جی سی ای پی‘ نے ایک حد سے زیادہ سادہ اور غلط شماریاتی (ریگریشن) ماڈل استعمال کیا ہے جو بجلی کے استعمال کو جی ڈی پی، آبادی میں اضافے اور دیگر بڑے پیمانے کے اعداد و شمار سے جوڑتا ہے، بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ جیسے ہی معیشت اور آبادی بڑھتی ہے، بجلی کی طلب بھی اتنی ہی بڑھے گی۔
لیکن یہ طریقہ کار ان متبادل ذرائع کو شامل نہیں کرتا جیسے کیپٹو پاور (گیس یا فرنس آئل کے جنریٹر)، چھتوں پر نصب سولر پینل، گیس بوائلر، سولر واٹر ہیٹر، الیکٹرک چولہے اور دیگر غیرمرکزی توانائی کے ذرائع، جو بجلی کے متوازی طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
اپٹما نے کہا کہ ان کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ماڈل غلط طور پر معیشت کی زیادہ تر سرگرمی کو بجلی کے استعمال سے جوڑ دیتا ہے اور نتیجتاً بجلی کی طلب کا اندازہ حد سے زیادہ ہو جاتا ہے۔
یہ مسئلہ ماڈل کے اندر اینڈوجینیٹی کے باعث پیدا ہوتا ہے، کیونکہ جب متبادل توانائی کے ذرائع کو نکال دیا جائے تو ان کے اثرات ایرر ٹرم میں شامل ہو جاتے ہیں، جو جی ڈی پی اور آبادی کی شرح نمو سے منسلک ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اندازے جانبدار اور غیر معتبر ہو جاتے ہیں اور بجلی کی طلب کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں غیرمرکزی توانائی ذرائع تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہ تعصبی جھکاؤ بجلی کی طلب کے مستقبل کے تخمینے کو حد سے زیادہ بڑھا دیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ طلب کا اندازہ زیادہ دکھایا گیا، کیونکہ ماڈل نے متبادل توانائی کے ذرائع کو نظرانداز کیا۔
اپٹما نے الزام عائد کیا کہ آئی جی سی ای پی کی طلب کا اندازہ جان بوجھ کر زیادہ دکھایا گیا ہے، یہ اوپر کی طرف جھکاؤ غیر ضروری طور پر بجلی گھروں میں اضافہ کرتا ہے جو زیادہ کیپیسیٹی پیمنٹس، بیکار اثاثے اور مالیاتی دباؤ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اپٹما نے کہا کہ یہی ’غلط طریقہ‘ صارفین کے ٹیرف کے تعین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ان کے تخمینے بھی جانبدار اور غلط ثابت ہوتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ صورتحال اور زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے، کیونکہ آئی جی سی ای پی خود تسلیم کرتا ہے کہ بجلی کی طلب کے تخمینے پورے شعبے کی منصوبہ بندی کی بنیاد ہیں، اگر بنیاد ہی غلط ہو تو پوری منصوبہ بندی غیر معتبر ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں غلط سرمایہ کاری، زیادہ اخراجات اور مہنگی بجلی جنم لیتی ہے۔
اپٹما نے کہا کہ جب تک بجلی کو سستا بنانا منصوبہ بندی کا مرکزی اصول نہیں بنایا جاتا، آئی جی سی ای پی انہی مسائل کو بڑھاتا رہے گا، جو بڑھتے ہوئے کیپیسیٹی پیمنٹس کی جڑ ہیں، یہ ادائیگیاں پچھلے 10 برسوں میں فی یونٹ 2 روپے سے بڑھ کر 17.06 روپے تک پہنچ چکی ہیں اور اب صارف کے ٹیرف کا نصف سے زیادہ حصہ کھا جاتی ہیں جو مجموعی طور پر پچھلی دہائی میں 6 کھرب روپے سے بھی زیادہ ہو چکی ہیں، اور ایندھن کی لاگت سے بھی بڑھ گئی ہیں۔
اپٹما نے کہا کہ اس سطح پر یہ نظام بالکل ناقابل برداشت ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں مالی وسائل محدود ہوں، صنعتی ترقی سست ہو، اور عوام کی قوتِ خرید کمزور ہو۔
برآمدی تنظیم نے مطالبہ کیا کہ بجلی کی کوئی نئی پیداوار اس وقت تک شامل نہیں کی جانی چاہیے، جب تک اس بوجھ کو فی یونٹ 5 روپے سے کم نہ کر دیا جائے، یہ حد ایک لازمی معیار بننی چاہیے تاکہ مستقبل کی تمام منصوبہ بندی اور منظوریوں میں ڈسپلن لایا جا سکے۔
اپٹما نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اس وقت ملک کو طلب میں جمود، زائد صلاحیت اور غیر فعال منصوبوں کا سامنا ہے، اس نے کہا کہ مالی سال 2025 میں صنعتی طلب تقریباً 4 فیصد کم ہوئی ہے، جب کہ زرعی کھپت ایک تہائی سے زیادہ گر گئی ہے، کیونکہ کسان ڈیزل اور سولر کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔
اپٹما نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ قومی سطح پر بجلی کی طلب جمود کا شکار ہے، لیکن آئی جی سی ای پی تقریباً 20 ہزار میگاواٹ صلاحیت میں اضافے کا منصوبہ بنا رہا ہے، یہ تضاد مزید بیکار پلانٹس، بھاری فکسڈ اخراجات اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کا باعث بنتا ہے۔