پاکستان

سندھ میں مزید 2 بچوں میں پولیو کی تصدیق، ملک میں رواں کیسز کی تعداد 29 ہوگئی

پولیو سے متاثرہ ایک بچی کا تعلق بدین اور ایک کا ٹھٹہ سے ہے، رواں سال سندھ میں پولیو کیسز کی تعداد 9 ہوگئی۔

سندھ میں دو نئے پولیو کیسز کی تصدیق ہوگئی جس کے بعد پاکستان میں 2025 کے مجموعی پولیو کیسز کی تعداد 29 ہوگئی۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) اسلام آباد کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے انسداد پولیو نے سندھ میں 2 نئے پولیو کیسز کی تصدیق کردی، متاثرہ بچیوں میں سے ایک ضلع بدین اور دوسری ضلع ٹھٹہ سےتعلق رکھتی ہے۔

ان کیسز کے بعد پاکستان میں 2025 کے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی ہے جن میں سے 18 خیبر پختونخوا، 9 سندھ، جبکہ پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک ایک کیس شامل ہے۔

پولیو ایک انتہائی متعدی اور لاعلاج بیماری ہے جو عمر بھر کے لیے معذوری کا سبب بن سکتی ہے، اس سے بچاؤ کا واحد مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہر 5 سال سے کم عمر بچہ ہر مہم کے دوران بار بار پولیو کے قطرے پیے اور حفاظتی ٹیکوں کا بروقت مکمل کورس حاصل کرے۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر فار پولیو ایریڈیکیشن نے ستمبر 2025 میں 88 اضلاع میں سب نیشنل پولیو ویکسی نیشن مہم چلائی جس میں بدین اور ٹھٹہ بھی شامل تھے، اس مہم کے دوران تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔

قومی سطح کی اگلی پولیو ویکسی نیشن مہم 13 سے 19 اکتوبر 2025 تک ہوگی، جس میں تقریباً 4 کروڑ 54 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا ہے، اس دوران بچوں کو وٹامن اے کے قطرے بھی پلائے جائیں گے تاکہ ان کی قوتِ مدافعت کو مزید بہتر بنایا جا سکے، ملک بھر میں 4 لاکھ سے زائد پولیو ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو یہ بنیادی حفاظتی سہولت فراہم کریں گے۔

یہ مہمات بچوں کی قوتِ مدافعت کو فوری طور پر بہتر بنانے اور تحفظ کو مزید مضبوط کرنے کے لیے شروع کی جاتی ہیں تاکہ پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے، والدین اور سرپرستوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ ہر مہم میں لازمی طور پر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں، کیونکہ یہی عمر بھر کی معذوری سے بچاؤ کا واحد طریقہ ہے۔

پولیو کے خاتمے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے، پولیو ورکرز گھروں تک جا کر قطرے پلانے کا فرض ادا کرتے ہیں، جبکہ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تمام حفاظتی ٹیکے مکمل کرائیں۔

کمیونٹی کے افراد، اساتذہ، مذہبی رہنما اور بالخصوص میڈیا ان کوششوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچوں کو ویکسین پلانے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ پاکستان کے ہر بچے کا مستقبل پولیو سے محفوظ بنایا جا سکے۔