تحریک لبیک کا لاہور سے مارچ شروع، کارکنوں کی پولیس کیساتھ جھڑپیں
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے لاہور سے اپنے احتجاجی مارچ کا آغاز کر دیا، جس کا مقصد اسلام آباد پہنچ کر امریکی سفارتخانے کے باہر اسرائیل مخالف مظاہرہ کرنا ہے۔
ڈان کے نمائندے نے رپورٹ کیا کہ آج شام مظاہرین مارچ کو آگے بڑھانےکے لیے لاہور میں چوبرجی چوک پر رکاوٹیں ہٹانےکی کوشش کر رہے تھے، ترجمان ایدھی یونس بھٹی کے مطابق ٹی ایل پی مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جنہیں رضاکاروں نے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
دوسری جانب، ترجمان ٹی ایل پی عثمان نوشاہی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ اس دوران ان کا ایک کارکن دم توڑ گیا جبکہ دیگر 22 زخمی ہوئے۔
امریکی سفارتخانے کی وارننگ
مارچ سے قبل امریکی سفارتخانے نے (بغیر نام لیے) ایک بیان میں خبردار کیا کہ 10 اکتوبر کو پاکستان بھر میں احتجاجی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ احتجاج سڑکوں کی بندش اور ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں، امریکی شہریوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بڑے اجتماعات سے گریز کریں اور اپنے اردگرد کے حالات سے باخبر رہیں۔
درجن سے زائد پولیس و رینجرز اہلکار زخمی
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے لاہور میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جتھوں کی سیاست کا پاکستان میں کوئی مقام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر شہری کا آئینی، سیاسی اور مذہبی حق ہے، لیکن یہ حق مخصوص شرائط کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے، اگر لوگ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ان شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔
طلال چوہدری نے الزام لگایا کہ ٹی ایل پی ماضی میں بھی اپنے مظاہروں میں پرتشدد گروہ لاتی رہی ہے، جس کے نتیجے میں کئی لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہوا اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا، انہوں نے کہا کہ جب غزہ کے لوگ اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے سے مطمئن ہیں تو پھر یہ احتجاج کیوں ؟
وزیر مملکت کا مزیدکہنا تھا کہ ٹی ایل پی کارکنان، پولیس اور رینجرز پر لاٹھیوں، کیمیکلز، کیلوں والی ٹینس بالز سے حملہ کرتے رہے، جس سے درجن سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔
طلال چوہدری کے مطابق، تقریبا 2 ہزار مظاہرین سمن آباد سے راوی روڈ کی طرف گئے، اس دوران پولیس نے طاقت کا استعمال نہیں کیا، کچھ رکاوٹیں ضرور تھیں، مگر طاقت استعمال نہیں کی گئی، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اہلکار صرف اینٹی رائٹ سامان سے لیس تھے، ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔
ان کے مطابق، جب ٹی ایل پی قیادت نے اپنے کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تو سی سی ٹی وی فوٹیج میں مظاہرین ہوائی فائرنگ کرتے اور سیف سٹی کیمرے توڑتے دکھائی دیے۔
اسمبلی اسپیکر ایاز صادق اور پارلیمانی سیکریٹری آسیہ اسحٰق نے بھی سوال اٹھایا تھا کہ جب فلسطینی عوام جنگ بندی سے خوش ہیں تو ٹی ایل پی احتجاج کے لیے اسلام آباد کیوں جا رہی ہے ؟
جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ سروسز معطل
ٹی ایل پی کے مارچ سے قبل اسلام آباد میں سڑکیں بند اور موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی، وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر پی ٹی اے نے 9 اکتوبر کو حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں تھری جی اور فور جی سروسز رات 12 بجے سے غیر معینہ مدت تک بند رہیں گی۔
یہ فیصلہ ٹی ایل پی کے احتجاج سے قبل سیکیورٹی اقدامات کے طور پر کیا گیا۔
ٹریفک پلان اور رکاوٹیں
اسلام آباد ٹریفک پولیس نے فیض آباد کے علاقے میں ممکنہ صورتحال کے پیش نظر ڈائیورژن پلان بھی جاری کیا، بڑی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی جبکہ چھوٹی گاڑیوں کے لیے متبادل راستے بتائے گئے۔
ذرائع کے مطابق ریڈ زون میں شامل اتاترک ایونیو، تھرڈ ایونیو، مارگلہ روڈ اور خیابانِ سہروردی کو بند کرنے کے لیے تقریبا 500 کنٹینرز لگائے گئے، جبکہ سرینا چوک، نادرا چوک، ایکسپریس چوک، آغا خان روڈ، مارگلہ روڈ (ٹریل 3 کے قریب) اور لقمان حکیم روڈ پر مزید کنٹیرز رکھ دیئے گئے۔
راولپنڈی کے داخلی راستے راوات-ٹی کراس، چونگی نمبر 26 اور فیض آباد کو بھی بند کر دیا گیا، ساتھ ہی میٹرو اور الیکٹرک بس سروسز بھی جمعرات (9 اکتوبر) کی شام سے معطل ہیں، کچھ تعلیمی اداروں نے بھی حکومتی ہدایات پر آج اپنے ادارے بند رہنے کا اعلان کیا۔
سیکیورٹی اقدامات اور گرفتاریاں
اسلام آباد پولیس نے جمعرات (9 اکتوبر) کو 280 سے زائد ٹی ایل پی کارکنوں کو حراست میں لےلیا، ذرائع کے مطابق تقریبا 7 ہزار سیکیورٹی اہلکار، جن میں 5 ہزار 500 پولیس، ایک ہزار ایف سی اور 500 رینجرز اہلکار وفاقی دارالحکومت میں تعینات ہیں۔
راولپنڈی میں امن و امان کے خدشے کے پیش نظر 11 اکتوبر تک دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، 300 سے زائد کنٹینرز کے ذریعے شہر کے داخلی و خارجی راستے بند جب کہ 4 یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی۔
پنجاب میں بھی دفعہ 144 نافذ
قبل ازیں، 9 اکتوبر کی رات پنجاب میں ٹی ایل پی مرکز پر کریک ڈاؤن کے دوران پولیس اور کارکنوں میں جھڑپیں ہوئیں، اس دوران متعدد افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک درجن پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے 8 اکتوبر کے حکم نامے میں کہا گیا کہ صوبے میں 10 دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کی جا رہی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق صوبے میں امن عامہ، عوامی جان و مال کے لیے سنگین خطرات موجود ہیں، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دشمن تنظیمیں جیسے را، کالعدم ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور داعش دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتی ہیں، جن کا ہدف اقلیتیں یا مذہبی رہنما ہو سکتے ہیں تاکہ فرقہ وارانہ فساد پھیلایا جا سکے۔
لہٰذا، تمام اجتماعات، ریلیاں، جلسے، جلوس، دھرنے، مظاہرے وغیرہ پر پابندی عائد کر دی گئی، ساتھ ہی اسلحے کی نمائش، لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال، اشتعال انگیز تقاریر یا نفرت انگیز مواد کی اشاعت و تقسیم پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی نے بھی اعلان کیا کہ ادارہ آج بند رہے گا، جبکہ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے 11 اور 12 اکتوبر کو ہونے والے امتحانات ملتوی کر دیے ہیں۔