افغانستان کیساتھ بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہیں، وزیر دفاع
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہےکہ موجودہ صورتحال کے باوجود افغانستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان مذاکرات سے انکاری نہیں، ہم 3 برس قبل بھی افغانستان گئے تھے، وہاں اعلیٰ حکام سے 4 سے 5 گھنٹے طویل بات چیت ہوئی۔
اس دوران ان لوگوں کی منت کی، انہیں سمجھایا کہ آپ ان لوگوں (کالعدم ٹی ٹی پی) کو پناہ گاہیں فراہم نہ کریں اور انہیں کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم برادشت نہ کر سکیں تو ان لوگوں کیخلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اُس وقت ایک تجویز آئی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو کسی اور ملک میں منتقل کر دیتے ہیں، جس پر 10 ارب روپے کی لاگت کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
ہمیں خدشہ تھا کہ یہ لوگ پیسے بھی لے لیں گے اور واپس اپنی پناہ گاہوں میں بھی آجائیں گے، ان کی واپس نہ آنے کی کوئی گارنٹی نہیں ملی اور یوں یہ تجویز وہیں ختم ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تو ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے، اگر کوئی حل تجویز کیا جاتا ہے تو اس کی گارنٹی کون دے گا، کابل حکومت ضمانت دینے کو تیار نہیں، وہ پہلے بھی انکاری تھے، آج بھی انکاری ہیں۔
وزیر دفاع نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ اگر افغانستان مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو ہم بھی ان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کی ضمات کون دے گا۔
کابل اس کی ضمانت دینے کو تیار نہیں، وہ ضمانت نہیں دیتے، اگر دیتے ہیں تو اس پر قائم نہیں رہتے، تاہم یہ واضح کر دوں کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان حکومت کو کہا تھا کہ ان لوگوں کو اپنی سرزمین پر ہم کنٹرول کر لیں گے، ہم انہیں اپنی زمین پر دیکھ لیں گے، یہاں سے حملے نہیں ہونے چاہیے۔
جس پر ہمیں دبے چھپے الفاظ میں بتایا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے ہمارے ساتھ امریکی لڑائی لڑی، جس کی وجہ سے ان لوگوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کر سکتے، اس لیے انہوں نے ان لوگوں کی ری سیٹلمنٹ کی بات کی تھی۔
خواجہ آصف نے کہا آج افغان حکومت کے اعلیٰ حکام دہلی میں بیٹھ کر بیان دے رہے ہیں، اگر افغانستان نے ان کا آلہ کار بننے کی کوشش کی تو انہیں بھی جواب دیا جائے گا، اگر افغانستان کی زمین استعمال ہو گی تو اس پر کارروائی کی جائے گی۔
ہم افغان زمین پر بھی ان کا پیچھا کریں گے، کالعدم ٹی ٹی پی کےخلاف دنیا کے ہر قانون کے تحت کارروائی کا حق رکھتے ہیں، اگر افغان حکومت ذمہ داری لیتی ہے تو ہم اس اقدام کا خیرمقدم کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی ہمسایہ ملک دوسرے ملک کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دیتا، بھارت کی ایما پر افغانستان کی زمین سے یہ ساری کارروائیاں کی جا رہی ہیں، آپریشن ’بنیان المرصوص‘ میں بھارت کو جو شکست ہوئی وہ اس ادھار کو چکانے کی کوشش کر رہے ہیں، بھارت کی افغانستان میں سہولت کاری کی جارہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں، اس صوبے کے لوگ ایسی بات کرتے ہیں جس سے افغانستان میں بیٹھے لوگوں کی ہمت جوان ہوتی ہے۔
ایک ایسے شخص کو خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا جو طالبان کی سائیڈ لیتا ہے، اس کے کچھ بیانات بھی موجود ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اس کا جھکاؤ کس طرف ہے، عمران خان کے اقدام نے ریاست کو بلیک کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا جواب دیا جائے گا۔
علی امین گنڈا پور کے حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کوئی خاص تعاون نہیں کیا گیا، ان کے دور میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں میں اضافہ ہوا، 4 یا 5 ہزار لوگ بسائے گئے تھے، وہ مزید بڑھے، ان کی سہولت کاری کی گئی، نئی پناہ گاہیں بنائیں گی، یہاں بھی اور افغانستان میں بھی۔