کراچی: ایس آئی یو کے زیرحراست نوجوان جاں بحق، پوسٹمارٹم میں جسم پر تشدد کے نشانات ملے، پولیس سرجن
کراچی میں ایس آئی یو پولیس کی حراست میں مبینہ تشدد سے نوجوان عرفان جاں بحق ہوگیا، پولیس سرجن کے مطابق نوجوان عرفان کے پوسٹ مارٹم میں جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے، ایڈیشنل آئی جی کا دعویٰ ہے کہ گرفتاری کے فوراً بعد اس شخص کو بظاہر ’ دل کا دورہ’ پڑا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا۔
کراچی میں گذشتہ روز ایک نوجوان پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو ) کی حراست میں مشتبہ حالات میں جاں بحق ہوگیا، پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ایک شخص، جس کی شناخت محمد عرفان کے نام سے ہوئی، کی لاش 22 اکتوبر کو شام 7 بجے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر لائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کے دوران لاش پر ’ متعدد زخموں کے نشانات’ پائے گئے۔ تاہم موت کی اصل وجہ رپورٹ آنے تک محفوظ رکھی گئی ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے ڈان نیوز کو بتایا کہ متوفی کو تین دیگر افراد کے ساتھ ڈکیتیوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے فوراً بعد اس شخص کو بظاہر ’ دل کا دورہ’ پڑا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا۔
شہر کے پولیس چیف نے کہا کہ پوسٹ مارٹم متعلقہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں کیا گیا ہے اور وہ ڈاکٹر کی حتمی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ قانونی کارروائی شروع کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر رپورٹ میں تشدد ثابت ہوا تو ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمانہ ہی نہیں بلکہ فوجداری کارروائی بھی کی جائے گی۔
جاوید عالم اوڈھو نے بتایا کہ انہوں نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے، اور کورنگی ایس ایس پی کو انکوائری افسر مقرر کیا ہے تاکہ موت کے اسباب معلوم کیے جا سکیں۔ ساتھ ہی سی آئی اے ڈی آئی جی سے تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی گئی ہے۔
ایس آئی یو کے ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے ڈان نیوز کو بتایا کہ اطلاع ملی تھی کہ چار مشتبہ افراد بینکوں اور اے ٹی ایمز کی ویڈیوز بنا رہے ہیں، جس پر ایس آئی یو کی ٹیم نے بدھ کو عائشہ منزل سے انہیں حراست میں لے لیا۔
انہیں اسی دن شام ساڑھے پانچ بجے ایس آئی یو/سی آئی اے سینٹر صدر لایا گیا اور صرف پندرہ منٹ بعد عرفان کی طبیعت بگڑ گئی، اسے جے پی ایم سی منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔
ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے کہا کہ لاش کو دو دن تک مردہ خانے میں رکھا گیا تھا اور خون کی گردش نہ ہونے کی وجہ سے جسم پر ’ خونی دھبے’ نظر آ رہے تھے جو تشدد کے نشانات نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر تین مشتبہ افراد کا طبی معائنہ بھی کرایا گیا تاکہ کسی تشدد کے امکان کو رد کیا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم مجسٹریٹ کی موجودگی میں کرایا گیا تاکہ نتائج کی ’ صداقت’ یقینی بنائی جا سکے۔ رپورٹ دو دن میں متوقع ہے، جس کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔
سات پولیس اہلکاروں، جن میں تین اے ایس آئی شامل ہیں، کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ ان میں اے ایس آئی عابد شاہ، عبدالوحید، سرفراز اور چار پولیس اہلکار حمایوں، فیاض، وقار اور آصف علی شامل ہیں۔
پولیس نے جے پی ایم سی کے میڈیکو لیگل سیکشن میں جمع کرائے گئے کاغذات میں متوفی کی عمر 30 سال درج کی ہے، تاہم لواحقین نے میڈیا کو بتایا کہ وہ صرف 16 سال کا تھا۔
رشتہ داروں نے اسپتال میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عرفان حال ہی میں اپنے آبائی علاقے احمد پور شرقیہ، ضلع بہاولپور سے کراچی آیا تھا۔ وہ بدھ کی صبح اپنے تین دوستوں کے ساتھ ناشتہ کرنے عائشہ منزل گیا تھا، جس کے بعد وہ سب ’ لاپتہ’ ہو گئے۔ ان کے موبائل فون بھی بند تھے۔ جمعرات کی شام عرفان کے چچا کو ایس آئی یو دفتر سے فون آیا کہ عرفان کی موت ہو گئی ہے۔
اہل خانہ نے الزام لگایا کہ عرفان کو تشدد کر کے مارا گیا اور وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی پولیس سے انصاف کا مطالبہ کیا۔
سینئر صحافی شاہد جتوئی نے اپنے سوشل میڈیا تبصرے میں کہا کہ عرفان کا گھر جنوبی پنجاب میں حالیہ تباہ کن سیلاب میں برباد ہو گیا تھا۔ وہ روزگار کی تلاش میں کراچی آیا تھا جب اسے تین دیگر دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور مبینہ طور پر تشدد سے ہلاک کر دیا گیا۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
شاہد جتوئی نے دعویٰ کیا کہ عرفان کی موت کی خبر سن کر اس کی والدہ کو دل کا دورہ پڑا۔ سینئر صحافی نے مقتول کے خاندان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔