سابق پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی کی قسمت سنوارنے کی کوششوں کو مزید تیز کر دیا
اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اب بھی جیل میں ہیں، اور پارٹی کی سیاسی ساکھ مسلسل کمزور ہو رہی ہے، لیکن پی ٹی آئی چھوڑنے والے کچھ اراکین نے خود یہ ذمہ داری اٹھا لی ہے کہ وہ اپنی سابقہ جماعت کو درپیش تنہائی ختم کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی چھوڑنے والے رہنماؤں نے حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے، تاکہ سیاسی درجہ حرارت کم کیا جا سکے اور عمران خان کی رہائی کی راہ ہموار ہو۔
اتوار کے روز فواد چوہدری نے پی ٹی آئی کی قسمت بدلنے کے اپنے عزم کو دہرایا، حالانکہ پارٹی کے سینئر رہنما اسد قیصر کا کہنا تھا کہ پارٹی اور اس کے بانی دونوں ’اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘، چاہے وہ مذاکرات میں شامل ہوں۔
’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے تسلیم کیا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت سے بات کرنے کا کوئی باقاعدہ مینڈیٹ حاصل نہیں ہے، تاہم، ایک ’فکرمند شہری‘ کے طور پر وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا غیر مستحکم سیاسی ماحول پرسکون ہو۔
سابق پی ٹی آئی رہنما کے مطابق ان کا گروپ آئندہ ہفتے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کرے گا، تاکہ سیاسی کشیدگی کم کرنے میں ان کے کردار پر زور دیا جا سکے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے متعدد تجربہ کار سیاست دان اور 15 سے زائد اراکینِ اسمبلی ان سے رابطہ کر چکے ہیں اور وہ اس بات سے متفق ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت ’انتہائی ضروری‘ ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ قید میں موجود سینئر پی ٹی آئی رہنماؤں کو ریلیف دے کر مصالحت کی سمت پہلا قدم اٹھائے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اگر حکومت لاہور اور گوجرانوالہ میں قید رہنماؤں کو ریلیف دیتی ہے، تو یہی رہنما عمران خان سے ملاقات کر کے بات چیت کے عمل کی قیادت کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ عمران خان کا مینڈیٹ اُن پارٹی رہنماؤں کے پاس ہے، جو پچھلے 2 سال سے جیلوں میں ہیں، جن میں شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیسے نام شامل ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نظام میں اپوزیشن کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑے گی تو اپوزیشن کے پاس احتجاجی مارچ، اسمبلیوں سے استعفے یا دیگر احتجاجی راستے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ماضی میں کئی بار مذاکرات ہوئے، لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ جب تک 3 بڑے رہنما (نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری) اور اسٹیبلشمنٹ جیل میں موجود تجربہ کار سیاست دانوں سے رابطہ نہیں کرتے، سیاسی مفاہمت ممکن نہیں ہو سکتی۔
شاہ محمود قریشی اور اعجاز چوہدری سے اپنی ملاقات کے حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ وہ ان رہنماؤں کو اس بنیاد پر اعتماد میں لینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے جیل سے خط لکھ کر پارٹی چیئرمین کو سیاسی جمود ختم کرنے کے لیے مذاکرات پر زور دیا تھا، ان قید رہنماؤں نے عمران خان کو لکھے اپنے خطوط میں سفارش کی تھی کہ وہ صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی بات چیت پر غور کریں۔
نرم مؤقف کی تردید
دوسری جانب، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد قیصر نے اپنے سابق ساتھیوں کے حالیہ اقدامات کو کم اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اسی صورت میں بات چیت کے لیے تیار ہوں گے, جب ’چھینا گیا مینڈیٹ‘ حقیقی نمائندوں کو واپس کیا جائے۔
انہوں نے ’ڈان‘ سے گفتگو میں کہا کہ ہم کئی سال سے کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سب سے بات کرنے کو تیار ہے، بشرطیکہ پارٹی کو انصاف فراہم کیا جائے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کے میرٹ پر فیصلے ہوں، ہم کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر بات اگلے انتخابات کے طریقہ کار اور ان کے آزاد و منصفانہ ہونے کی ضمانت پر ہو۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ پارٹی کے کچھ رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات ’بہتر‘ کرنا چاہتے ہیں، لیکن عمران خان کی وجہ سے ہچکچا رہے ہیں، تو اسد قیصر نے جواب دیا کہ کچھ افراد کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، مگر یہ پارٹی کی پالیسی نہیں ہے، پارٹی اجلاسوں میں یہ بات واضح طور پر کہی جاتی ہے کہ اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب، فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت گزشتہ 2 سال میں عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے عمران خان کو بتایا تھا کہ پارٹی کے کئی رہنما ذاتی مفادات کی وجہ سے ان کی قید برقرار رہنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ ان کی رہائی کے لیے کوئی عملی کوشش نہیں کریں گے۔
’مائنس عمران فارمولا‘ کی تردید
فواد چوہدری کے ساتھی عمران اسمٰعیل نے اس تاثر کی تردید کی کہ وہ ’مائنس عمران فارمولے‘ پر کام کر رہے ہیں، اور کہا کہ ان کی مہم کا مقصد پاکستان کی سیاست کو تصادم سے دور لے جانا ہے۔
انہوں نے ایک طویل بیان میں کہا کہ ہم نے نجی طور پر کئی پی ٹی آئی رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریباً سب نے تسلیم کیا کہ تصادم کی سیاست ناکام ہو چکی اور اب مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملے، تو دونوں نے (عمران خان کے ساتھ وفاداری برقرار رکھتے ہوئے) اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ جمود ختم ہونا چاہیے، انہوں نے سرنڈر نہیں بلکہ معمول کی سیاسی فضا بحال کرنے کی بات کی۔
سابق گورنر سندھ نے کہا کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ احتجاج اور تصادم ہی درست راستہ ہے، تو اسے آگے آکر ہمیں قائل کرنا چاہیے، جو سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔