پاکستان میں ’سپر فلو‘ واقعی خطرناک ہے، ماہرین صحت کیا کہتے ہیں؟
یورپ کے کئی ممالک بالخصوص برطانیہ میں جس تیزی سے پھیلنے والے فلو کو ’سپر فلو‘ کہا جا رہا ہے، اس میں اضافے کے باعث تشویش پائی جا رہی ہے، تاہم پاکستانی ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ صورتحال احتیاط کی متقاضی ضرور ہے مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بیماری کسی نئے وائرس کے بجائے ایک موجودہ وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں کے باعث سامنے آئی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس اضافے کی بنیادی وجہ انفلوئنزا اے (H3N2) اور اس کی ایک نئی ذیلی قسم سب کلاڈ کے ہے، جو H3N2 کی ہی ایک تبدیل شدہ قسم ہے اور اس میں متعلقہ وائرسز کے مقابلے میں کئی جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے تصدیق کی ہے کہ حالیہ مہینوں میں دنیا بھر میں فلو کی سرگرمی میں اضافہ ہوا ہے اور کئی ممالک میں معمول کے موسم سے پہلے ہی فلو کے کیسز بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔
تاہم موجودہ وبائی اعداد و شمار یہ ظاہر نہیں کرتے کہ سب کلاڈ کے پہلے کے وائرسز کے مقابلے میں زیادہ شدید بیماری کا سبب بنتا ہے۔ البتہ اس کا معمول سے پہلے پھیلاؤ تشویشناک ضرور ہے، جبکہ ویکسینیشن بدستور شدید بیماری اور ہسپتال میں داخلے کے خطرے کو کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انفلوئنزا ایک عام بیماری ہے جو ہر سال بتدریج جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ارتقا پذیر رہتی ہے، جس کے باعث مسلسل نگرانی اور ویکسین کی بروقت اپ ڈیٹ ضروری ہے۔
پاکستان میں صورتحال
ماہرین کے مطابق اگرچہ یورپ میں اس وائرس کے باعث ہسپتالوں میں داخلے بڑھے ہیں، تاہم پاکستان میں بزرگ آبادی نسبتاً کم اور موسمی پیٹرن مختلف ہونے کے باعث اس کے اثرات کم شدید مگر پھر بھی قابلِ توجہ رہنے کا امکان ہے۔
اسلام آباد میں سابق صوبائی وزیرِ صحت پنجاب اور رائل کالج آف لندن کے انٹرنیشنل ایڈوائزر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان کو بتایا کہ وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں کمزور طبقات کے لیے خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “جب فلو نمونیا میں تبدیل ہو جائے تو مریضوں، بالخصوص بچوں، بزرگوں اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیے جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ میں مشورہ دیتا ہوں کہ عوام سردیوں کے آغاز سے قبل انفلوئنزا کی ویکسین لگوائیں۔”
پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید اکرم نے مزید کہا کہ ویکسین اوسطاً 70 فیصد تک انفلوئنزا کے خطرے کو کم کرتی ہے، اس لیے تمام طبی عملے کو بھی ویکسین لگوانی چاہیے کیونکہ وہ نہ صرف زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں بلکہ وائرس پھیلانے کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔
ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں کے ماہر اور پاکستان میں کووڈ۔19 ردعمل کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر رانا صفدر کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان فلو کے پھیلاؤ کے عروج پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ نوجوان افراد کمیونٹی میں وائرس پھیلانے کا بڑا ذریعہ بنتے ہیں، مگر شدید پیچیدگیاں زیادہ تر بزرگوں اور دائمی امراض میں مبتلا افراد میں سامنے آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ“پاکستان میں بہت کم بزرگ فلو کی ویکسین لگواتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہر سردیوں میں زیادہ خطرے میں رہتے ہیں۔”
ڈاکٹر رانا صفدر نے تصدیق کی کہ برطانیہ میں فلو کی لہر کی ذمہ دار H3N2 سب کلاڈ کے پاکستان میں بھی رپورٹ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق، “اگرچہ یہ وائرس اس سٹرین سے مختلف ہے جسے ڈبلیو ایچ او نے 2025-26 کی فلو ویکسین کے لیے منتخب کیا ہے، تاہم ویکسین پھر بھی شدید بیماری کے خطرے کو کم کرے گی۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں چھائی ہوئی شدید دھند وائرس کے پھیلاؤ کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتیاطی تدابیر وہی روایتی ہیں، جن میں ماسک کا استعمال، ہاتھوں کی صفائی اور علامات رکھنے والے افراد سے فاصلہ شامل ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ “علامات کی صورت میں مریض فوراً اینٹی بایوٹکس کا استعمال نہ کریں بلکہ مناسب آرام کریں، گرم مشروبات پئیں اور صحت بخش غذا استعمال کریں۔”
مائیکرو بایولوجسٹ پروفیسر جاوید عثمان نے کہا کہ اس وقت گردش کرنے والے متعدد سانس کے وائرسز جن میں رائنو وائرس، پیراانفلوئنزا، آر ایس وی اور سارس کوو۔2 شامل ہیں — کے باعث صرف علامات کی بنیاد پر فلو کی تشخیص تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “فلو ویکسین لگوانے کا بہترین وقت، جسے ’سویٹ اسپاٹ‘ کہا جاتا ہے، ستمبر سے اکتوبر کے درمیان ہے کیونکہ مؤثر مدافعت پیدا ہونے میں کم از کم دو ہفتے لگتے ہیں۔”
قومی ادارۂ صحت (این آئی ایچ) میں چیف آف پبلک ہیلتھ لیبارٹریز ڈاکٹر محمد سلمان نے تصدیق کی کہ موسمی انفلوئنزا اس وقت دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی عام ہے۔
انہوں نے کہا کہ “ہر سال اگست میں نئی فلو ویکسین متعارف کرائی جاتی ہے، اور میں تجویز کرتا ہوں کہ یہ ویکسین بزرگ افراد اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والوں کو ضرور لگائی جائے۔”
پنجاب بھر میں تیز اضافہ
لاہور میں سینئر طبی ماہرین نے سپر فلو کے کیسز میں “تیز اضافہ” رپورٹ کیا ہے، خاص طور پر گنجان آباد شہری علاقوں میں۔ کثیر المنزلہ عمارتوں میں رہنے والے افراد، مصروف بازاروں میں آنے جانے والے لوگ اور شادیوں جیسی تقریبات میں شرکت کرنے والے افراد وائرس کے زیادہ خطرے میں ہیں۔
سینئر پرنسپل میڈیکل آفیسر اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر مسعود اختر شیخ نے بتایا کہ یہ اسٹرین “لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور فیصل آباد سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں کیسز میں واضح اضافے کا سبب بن رہی ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تاحال اس ویرینٹ سے کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی، تاہم فلو اور سینے کی پیچیدگیوں کے ساتھ آنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
“بچے گھروں میں سپر اسپریڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اکثر وائرس بزرگ افراد تک منتقل کر دیتے ہیں۔”
ڈاکٹر شیخ نے کہا کہ موجودہ صورتحال موسمی فلو، کووڈ۔19 اور آر ایس وی انفیکشنز کے ساتھ مل کر مزید سنگین ہو گئی ہے، جبکہ بین الاقوامی سفر وائرس کے پھیلاؤ کو تیز کر سکتا ہے، جیسا کہ برطانیہ میں دیکھا گیا جہاں اس سیزن کو 2017-18 کی شدید فلو لہر سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
لاہور کے شیخ زاید اسپتال کے سابق سربراہ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر محمد ارشد نے زیادہ خطرے والے مریضوں کے لیے اوسیلیٹامیویر (Oseltamivir) تجویز کی، جس سے بیماری کی مدت اور شدت میں کمی آ سکتی ہے۔ تاہم، یہ دوا تمام مریضوں کے لیے ضروری نہیں اور ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال نہیں کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مریض کو این 95 ماسک پہننا چاہیے، ہاتھوں کو بار بار دھونا چاہیے اور کمروں میں مناسب ہوا کا گزر یقینی بنانا چاہیے، جبکہ جلد صحت یابی کے لیے مناسب پانی، متوازن غذا اور آرام بے حد ضروری ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چھ ماہ سے زائد عمر کے تمام افراد کو فلو ویکسین لگوانی چاہیے۔