بھارت کی آبی جارحیت سے پاکستان میں سنگین معاشی بحران کا خدشہ ہے، عالمی برادری نوٹس لے، نائب وزیراعظم
نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے دریائے چناب کے بہاؤ میں اچانک اتار چڑھاؤ کے بعد بھارت کی پانی کو ہتھیار بنانے کی پالیسی پر شدید تشویش کا اظہار کیا، جس کے باعث پنجاب کے کسانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔
انہوں نے یہ بات جمعہ کو اسلام آباد میں سفارتی برادری کے لیے ہنگامی میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
بریفنگ کے آغاز میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی ایک صورتحال کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے رواں برس اپریل میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل رکھنے کا مشاہدہ کیا، لیکن اب جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھارت کی جانب سے ایسی سنگین خلاف ورزیاں ہیں جو سندھ طاس معاہدے کی روح پر حملہ ہیں۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ رواں سال دو مرتبہ دریائے چناب کے بہاؤ میں غیرمعمولی اور اچانک تبدیلیاں دیکھی گئیں، جو 30 اپریل سے 21 مئی اور 7 دسمبر سے 15 دسمبر کے درمیان ریکارڈ ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کے بہاؤ میں یہ تبدیلیاں پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ یہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بھارت نے یہ پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت لازم پیشگی اطلاع، ڈیٹا یا معلومات کے تبادلے کے بغیر چھوڑا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے اس منفی اقدام کے باعث ہمارے انڈس واٹر کمشنر نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی ہے، جیسا کہ سندھ طاس معاہدے میں درج ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ بھارت کا حالیہ اقدام واضح طور پر پانی کو ہتھیار بنانے کی مثال ہے، جس کی جانب پاکستان مسلسل عالمی برادری کی توجہ دلاتا آ رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ زرعی سائیکل کے ایک نازک مرحلے پر پانی میں بھارت کی ہیرا پھیری براہِ راست ہمارے شہریوں کی زندگی، روزگار، خوراک اور معاشی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو توقع ہے کہ بھارت انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے گا، دریاؤں کے بہاؤ میں کسی بھی یکطرفہ رد و بدل سے گریز کرے گا اور سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح اور متن کے مطابق مکمل عمل کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے حالیہ خلاف ورزیاں محض ایک مثال ہیں، بھارت مسلسل ایک منظم انداز میں اس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ کشن گنگا اور رتلے جیسے پن بجلی منصوبوں میں بھارت کی جانب سے ایسے ڈیزائن شامل کیے گئے ہیں جو معاہدے کی تکنیکی شرائط کی خلاف ورزی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت غیرقانونی ڈیم تعمیر کر رہا ہے اور معاہدے کی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک ناقابلِ تلافی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ ان ڈیموں کے ذریعے بھارت کی پانی ذخیرہ کرنے اور اس میں رد و بدل کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، جو پاکستان کی سلامتی، معیشت اور 24 کروڑ عوام کے روزگار کے لیے خطرہ ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت نے معاہدے کے تحت لازم معلومات، ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور مشترکہ نگرانی کا عمل بھی روک رکھا ہے، جس کے باعث پاکستان سیلاب اور خشک سالی جیسے خطرات سے دوچار ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا یہ غیرقانونی اور غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل پاکستان میں انسانی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بھارت کو بلا روک ٹوک معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت دی گئی تو یہ ایک انتہائی خطرناک نظیر قائم کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تنازعات کے حل کے طریقۂ کار کو بھی سبوتاژ کر رہا ہے، کیونکہ وہ مستقل ثالثی عدالت اور نیوٹرل ایکسپرٹ کی کارروائیوں میں شرکت سے انکار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دانستہ طور پر ایک مستحکم اور تسلیم شدہ ثالثی نظام کو نقصان پہنچانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک پابند قانونی دستاویز ہے جس نے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام میں گراں قدر کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت کو خطرے میں ڈالتی ہے اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنجیدہ خدشات پیدا کرتی ہے، اور یاد دلایا کہ پی سی اے نے حال ہی میں معاہدے اور اس کے تنازعاتی نظام کی مسلسل حیثیت کی توثیق کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ سندھ طاس معاہدہ نافذ العمل ہے اور اس کی دفعات فریقین پر لازم ہیں۔
اسحاق ڈار نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارتی بے لگام رویے کو مسترد کرے۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ کے خصوصی طریقۂ کار اور مینڈیٹ ہولڈرز کی جانب سے بھارت کو بھیجی گئی اس دستاویز کا بھی حوالہ دیا جس میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کے غیرقانونی اقدامات پر سنگین قانونی، انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا، اور بتایا کہ یہ دستاویز 15 دسمبر کو منظرِ عام پر آئی۔
انہوں نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 21 جون کو بھارت کے وزیرِ داخلہ نے اعلان کیا کہ بھارت کبھی معاہدہ بحال نہیں کرے گا بلکہ پانی کو ایک نئی نہر کے ذریعے راجستھان منتقل کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی رپورٹ کے مطابق 21 اپریل کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو پانی کی فراہمی روکنے یا موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے کے بعد بھارت کے اقدامات زندگی اور شخصی سلامتی کے حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پانی کے بہاؤ میں خلل ڈالنے سے کام، روزگار، مناسب معیارِ زندگی، پانی، خوراک اور صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول اور ترقی کے حقوق متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کو معطل رکھنے کے اقدام سے پاکستان میں لاکھوں افراد کے انسانی حقوق متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے ایک بار پھر عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کی جانب سے دوطرفہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور بھارت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے۔
انہوں نے بھارتی قیادت کے جارحانہ بیانات کا بھی حوالہ دیا جو ان کے بقول پانی کو ہتھیار بنانے اور پاکستان و اس کے عوام کو نقصان پہنچانے کے عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس صورتحال کو بارہا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے نوٹس میں لا چکے ہیں، انہوں نے 11 دسمبر کی حالیہ کوشش کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر کو بھی خط لکھ کر ان سے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
خطاب کے اختتام پر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بالخصوص سلامتی کونسل کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری بھارت پر زور دے گی کہ وہ سندھ طاس معاہدہ مکمل طور پر بحال کرے، پانی کو ہتھیار بنانے کا عمل روکے، بین الاقوامی قانون اور معاہداتی ذمہ داریوں کا احترام کرے اور جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے سے باز رہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پانی زندگی ہے اور اسے ہتھیار نہیں بنایا جا سکتا۔