8 لاکھ بچے ویکسین سے محروم رہ جانے کے باوجود 2025 میں پولیو کیسز کم رپورٹ
اسلام آباد: سال کی آخری پولیو مہم کے دوران تقریباً آٹھ لاکھ بچے ویکسین سے محروم رہنے کے باوجود پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے مطابق 2025 میں پاکستان نے پولیو وائرس کے خلاف جدوجہد میں پیش رفت کی ہے۔
پولیو ایک نہایت متعدی اور لاعلاج مرض ہے جو زندگی بھر کی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد مؤثر طریقہ یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر ہر بچے کو ہر مہم کے دوران پولیو کے قطرے پلائے جائیں اور تمام بنیادی حفاظتی ٹیکوں کی بروقت تکمیل کی جائے۔
پروگرام کے بیان کے مطابق سال کے دوران پولیو ویکسینیشن کی 6 مہم چلائی گئیں، جن میں 5 ملک گیر تھیں۔ اس کے نتیجے میں پولیو کے رپورٹ ہونے والے کیسز 2024 میں 74 سے کم ہو کر 2025 میں 30 رہ گئے جبکہ ستمبر کے بعد ملک بھر میں کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
تاہم ایک پولیو ایکسپرٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ وائرس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ چند سال غیر فعال رہتا ہے اور پھر دوبارہ شدت کے ساتھ سامنے آ جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ درست ہے کہ 2024 میں 74 کیسز رپورٹ ہوئے اور جاری سال میں یہ تعداد 30 تک کم ہوئی مگر 2023 میں صرف چھ کیسز تھے جبکہ 2022 میں 20 کیسز سامنے آئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ سال تقریباً مکمل ہو چکا ہے، اس کے باوجود کیسز کی تعداد میں اضافے کا امکان موجود ہے کیونکہ کسی بچے میں فالج پولیو کی وجہ سے ہے یا کسی اور سبب سے اس کی تصدیق میں تقریباً تین ہفتے لگتے ہیں۔ ان کے مطابق ہر سال لیبارٹری میں فالج کے شکار بچوں کے تقریباً چار ہزار نمونے جانچ کے لیے آتے ہیں، اس لیے جنوری کے اختتام تک 2025 کے حتمی کیسز کی تصدیق ہو سکے گی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آخری ملک گیر پولیو مہم کا ہدف پانچ سال سے کم عمر ساڑھے چار کروڑ54 لاکھ بچوں کو قطرے پلانا تھا، تاہم ملک بھر میں انکار کے واقعات کے باعث مجموعی طور پر چار کروڑ 46 لاکھ بچوں کو ویکسین دی جا سکی۔
پولیو وائرس کی مکمل مانیٹرنگ کی ضرورت
پولیو پروگرام کے بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ پولیو کیسز کی تعداد میں کمی آ رہی ہے، لیکن بیماری کے مکمل خاتمے تک پاکستان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ وائرس اب بھی بعض زیادہ خطرے والے علاقوں میں گردش کر رہا ہے جس کے باعث مسلسل نگرانی نہایت ضروری ہے۔
بیان کے مطابق ہر بچے تک رسائی اور کسی بھی ممکنہ واپسی کو روکنے کے لیے ہدفی اقدامات، مؤثر کمیونٹی روابط اور مسلسل ویکسینیشن مہمات ناگزیر ہیں۔ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز، سیکیورٹی اہلکار اور مقامی انتظامیہ باہمی تعاون سے کام کر رہے ہیں تاکہ قوتِ مدافعت کی بلند سطح برقرار رہے اور پاکستان پولیو فری بننے کی راہ پر گامزن رہے۔
یہ پیش رفت 15 سے 21 دسمبر تک جاری رہنے والی تازہ ترین قومی پولیو مہم کے دوران مزید مضبوط ہوئی، جس میں قومی سطح پر 98 فیصد سے زائد کوریج حاصل کی گئی۔ چاروں صوبوں کے ساتھ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں بھی کارکردگی حوصلہ افزا رہی۔
پچھلی مہم کے مقابلے میں ویکسین سے محروم رہ جانے والے بچوں کی تعداد میں 18 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ خاص طور پر جنوبی خیبرپختونخوا میں رسائی اور آپریشنل کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی۔
بیان میں کہا گیا کہ اس کے باوجود کوششیں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ہر بچے کو تحفظ فراہم نہیں ہو جاتا۔ اگرچہ ان اقدامات سے اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر پولیو کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
بیان کے مطابق کمیونٹیز، مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے ساتھ مسلسل روابط اعتماد بڑھانے، غلط معلومات کا تدارک کرنے اور ہر بچے کو پولیو سے محفوظ بنانے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ مقامی سطح پر رسائی کے مسائل، خصوصاً جنوبی خیبرپختونخوا کے بعض حصوں میں اب بھی موجود ہیں تاہم ان کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ضلعی سطح پر ہدفی اقدامات کے ذریعے انہیں حل کیا جا رہا ہے۔
بیان کے مطابق 2025 میں حاصل ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر پاکستان کا پولیو خاتمے کا پروگرام 2026 میں ہدفی کوششوں کو مزید تیز کر رہا ہے تاکہ باقی ماندہ وائرس کی ترسیل کو روکا جا سکے اور فیصلہ کن طور پر خاتمے کی جانب بڑھا جا سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ اب جبکہ وائرس کی ترسیل محدود ہو چکی ہے، آبادی میں قوتِ مدافعت بڑھ رہی ہے اور مشکل سمجھے جانے والے علاقوں میں کارکردگی بہتر ہو رہی ہے، پروگرام ہر بچے کے لیے پولیو فری مستقبل کے حصول کی راہ پر مضبوطی سے گامزن ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان دنیا کے ان آخری دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو اب بھی موجود ہے، دوسرا ملک افغانستان ہے۔