Dawn News Television

شائع 16 اکتوبر 2012 10:17am

کیا شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو گا؟

اسلام آباد: سوات میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں شدید زخمی ہونے والی ملالئے یوسفزئی کو علاج کے لیے برطانیہ بھیجنے کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے زور پکڑتی خبروں نے بھی دم توڑنا شروع کر دیا ہے۔

شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ میں سیاسی و عسکری قیادت کی مصلحت پسندی بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آئی ہے۔

پاکستان کی فوج گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دوران مختلف جنگجو گروہوں کا گڑھ سمھجے جانے والے شمالی وزیرستان میں کسی نہ کسی وجہ سے آپریشن کرنے سے گریز کرتی رہی ہے ۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں تسلیم کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کسی آپریشن کی تیاریاں نہیں کی جا رہیں۔

ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے فوج نے کہا تھا کہ شمالی وزیرستان سے تحریک طالبان پاکستان اور اس سے جڑے دوسرے عسکریت پسند گروہوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے سیاسی قیادت کی حمایت درکارہے۔

یاد رہے کہ فاٹا اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران 2007 میں ٹی ٹی پی اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں نے شمالی وزیرستان کو اپنی آماجگاہ بنا لیا تھا۔

گیند سیاسی قیادت کے کورٹ میں پھنکنے والی فوج کے مطابق اس کے کمانڈرز ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بار ہا عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔

تاہم یہاں فوج اپنے اس موقف کو دہرانا بھول گئی جس میں کہا گیا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کا فیصلہ اور وقت فوج خود طے کرے گی۔

ملالئے پر حملے کے بعد فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی  کے دہشت گردی کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے بیانات سے تاثر ملا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونے جا رہا ہے۔

جو اہم نقطہ سب کی نظروں سے اوجھل رہا وہ یہ تھا کہ فوج کا یہ نیا عزم محض قومی بے چینی کے وقت پر کیا جانے والا خطبہ تھا جس میں فوج نے کہیں بھی یہ واضح نہیں کیا کہ صورتحال اب ہاتھ سے نکل چکی ہے۔

اگرچہ یہ غلط ہے، تاہم اس صورتحال سے یہ اشارہ دینا مقصود ہے کہ حکومت شمالی وزیرستان میں موجود تمام جنگجو گروہوں کے خلاف ایک مکمل کارروائی سے گھبرا گئی۔

تاہم بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ فوج نے کسی مرحلے پر بھی یہ عندیہ نہیں دیا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر فوج آپریشن پر آمادہ ہوتی تو سب ان کے پیچھے صف آرا ہو جاتے جیسا کہ ماضی میں سوات ، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں آپریشن کے وقت دیکھا گیا تھا۔

حکومت کے اس انکشاف سے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن زیر غور نہیں، دائیں بازو کی ان جماعتوں کو تقوعیت ملی ہے جو ملالئے پر حملے کے بعد طالبان کے خلاف عوامی غصے کے لہر کی وجہ سے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے تھیں۔

فوج کی حمایت یافتہ دفاع پاکستان کونسل جو جولائی میں نیٹو رسد کے کھل جانے کے بعد پس منظر میں چلی گئی تھی اب اچانک واپس میدان میں آنے کے بعد کھل کر علاقے میں فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں دفاع پاکستان کونسل کی واپسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود فوج میں بھی اس آپریشن کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں یا پھر فوج کے سخت بیانات طالبان کے خلاف عوامی جذبات کی محض 'ترجمانی' تھے۔

ماضی میں قبائلی علاقے میں خدمات سرانجام دینے والے ایک فوجی کمانڈر کا اصرار ہے کہ آپریشن کی راہ میں صرف اور صرف سیاسی فیصلہ لینے کی کمی ہے اور کوئی دوسری رکاوٹ حائل نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملالئے پر حملے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے غم و غصے کے باجود آپریشن پر قومی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا ۔

' یہاں بات صرف فوجی آپریشن تک محدود نہیں، بڑی تعداد میں بے دخل ہونے والے قبائلیوں اور دوسرے مضمرات کے حوالے سے واضح سیاسی حمایت درکار ہو گی'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سیاسی جماعتیں آپریشن پرآمادہ نظر نہیں آتیں تو انہوں نے اسے سیاسی مصلحت قرار دیتے ہوئے بتایا کہ 'یہ انتخابات کا سال ہے اور کوئی جماعت بھی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہو گی'۔

انہوں نے زور دیا کہ سیاسی حمایت حاصل ہو جانے کے بعد دوسری رکاوٹیں دور کرنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔

دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کے عہد کے تناظر میں فوج یہ نہیں چاہتی کہ اسے شمالی وزیرستان میں آپریشن میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جائے۔

اس علاقے میں ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کے علاوہ حقانی نیٹ ورک ، القاعدہ ، عرب جنگجو اور وسطی ایشیائی ملکوں کے عسکریت پسند بھی موجود ہیں۔

Read Comments