Dawn News Television

شائع 17 اکتوبر 2012 06:43pm

ملالئے اور جالوت

زندگی میں پہلی دفعہ مجھے پاکستان پیارا لگ رہا ہے۔ میں پاکستان کا ایسی تصویر دیکھ رہا ہوں جو کہ میں ہمیشہ سے چاہتا تھا۔

ملالئے کی تصویر ہر چوک، اخبار، فیس بک اور ٹی وی چینل پرنظر آ رہی ہے۔ یہ ہے وہ پاکستان جو مجھے امید اور تبدیلی کی نوید دیتا ہے۔ ہمیں پاکستان کی تاریخ کے اس سنہری لمحے کا استقبال کرنا چاہیے جو شاید زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکے۔

ملالئے پر حملے سے دو ہفتے پہلے میں نے اس کی تقریر ایک کانفرنس میں سنی۔ مجھے اپنی تقریر اور کارٹون دکھانے تھے اور اس کی تیاری میں میرے اپنے پسینے چھوٹ رہے تھے۔

میں ملالئے کی شفاف انداز میں تقریر پر رشک کر رہا تھا کیونکہ میں خود تقریر سے گھبراتا ہوں۔ لیکن اس کا ایک جملہ میرے دماغ میں اٹک گیا۔ اس نے کہا کہ ایک مخالف اواز خوف کی سایوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مجھے یہ بات گہری لگی لیکن اب اس کی حقیقت سمجھ آ رہی ہے۔ ہمیں اس لڑکی کی ہمت اور'ناں' کہنے کی جرات کو سراھنا چاہیے۔

ایک لڑکی کی ہمت نے طاقتور طالبان کے عزایم کو ننگا کر دیا اور وہ اپنے بذدلانہ حملے کی صفای دینےاورشریعت کے پردے کے پیچھے چھپنے  پر مجبور ھوگئے.

وہ مذہبی اور سیاسی جماعتیں جو طالبان کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتی ہیں وہ بھی طالبان کے مذمت پر مجبور ہوگیں۔

ملالئے نے داؤد علیہ السلام کی طرح اسلحہ سے لیس، جنگلیوں کے سردار جالوت کو شکست دے دی۔

جس دن ملالئے پر حملہ ہوا میں اپنی کار میں بیٹھا اپنی بیوی کی شاپنگ ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ میری بیٹی جو ملالہ سے ایک سال بڑی ہے وہ کار میں پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ کار پارکنگ میں کچھ اندھیرا تھا۔ اس نے مجھ سے سوال پوچھا لیکن اس کی آواز سے مجھے لگا جیسے وہ اب رو پڑے گی۔ میں بیک ویو مرر میں اس کو دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ پتہ نہیں کیوں میں اس سے انکھیں ملانے سے کترا رہا تھا۔

بیٹی: اپنی راۓ کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے۔

میں: نہیں، اس میں کیا مشکل ہے، کون تمہیں روک رہا ہے۔

بیٹی: میں اپنی بات نہیں کر رہی، میں ملالئے کی بات کر رہی ہوں۔

میں: لیکن اس نے تو اپنی راۓ کا اظہار کیا ہے۔ اور اس کے اظہار میں کتنی طاقت ہے۔ کیا اس نے تم پر اور لاکھوں پاکستانیوں پر اثر نہیں چھوڑا۔ اس نے ایک ڈائری بالکل این فرینک کی طرح جو تمھیں بہت پسند ہے۔

بیٹی: لیکن دونوں کا انجام ایک جیسا ہوا ہے۔ وہ جرمنوں کے ہاتھوں نازی کیمپ میں مر گءی اور ملالئے ہسپتال میں پڑی ہے۔

میں: تم کیا کہنا چاہتی ہو؟

بیٹی: کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان ایسا ملک ہی چھوڑ دے جہاں نہ آپ بات کر سکیں،اور جہاں نہ اپ اپنی مرضی کا پیشہ اختیار کر سکیں؟۔

میں: ملالئے کے پاس ہو سکتا ہے باہر جانے کا راستہ نہ ہو۔ حالات سے گھبرا کر بھاگنا بھی تو کوئی حل نہیں ہے۔

بیٹی: لیکن وہ سوات چھوڑ سکتی تھی، کسی اور شہر جا سکتی تھی۔

میں: کسی اور شہر جانا بھی بہت مشکل کام ہے۔ اور اگر اسکا پورا خاندان نقل مکانی کر جاتا تو وہ تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکتی ۔

بیٹی: لیکن صرف وہ ہی کیوں اپنے حقوق کے کھڑی ہوگئی تھی۔

میں: اس لیے کہ جن لوگوں پر بیتی ہو وہ ہی اپنے حالات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ جو لوگ محفوظ ماحول میں رہتے ہوں وہ انکے حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ حقیقت سے ٹاکرا سب سے بڑا استاد ہے۔ اس کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب اسے تعلیم چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔

بیٹی: میں اپنے اسکول میں اپنے سہیلیوں سے بات کر رہی تھی اور ایک لڑکی نے کہا کہ ملالئے پر طالبان نے حملہ نہیں کیا بلکہ وہاں کے قبایلی لوگوں نے کیا ہے کیونکہ وہ تعلیم کے خلاف ہیں۔

میں: یہ بات درست نہیں ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ایک گروپ نے سینکڑوں سکول فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں تباہ کیے ہیں۔ اور طالبان نے اس سے پہلے بھی افغانستان انیس سو پچانوے میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی تھی۔

بیٹی: جب میں اس لڑکی کو ملالئے کے بارے میں بتانے لگی تو میری دوست نے میز کے نیچے سے میری ٹانگ ہلای کہ بات اگے نہ بڑھاوں۔

میں: کیوں؟ اسے کس بات کا ڈر تھا۔

بیٹی: وہ کہتی تھی کہ مفت بحث میں نہ الجھو۔ ان کو ملالئے کا بھی اس واقعہ کے بعد علم ہوا ہے۔

میں: تو؟

بیٹی: کیا میں اپنے اسکول کے میگزین میں اس بارے لکھ سکتی ہوں؟

میں: [اپنے آپ سے] کیا یہ لکھنے سے ڈر رہی ہے؟

[بیٹی سے] ہاں کیوں نہیں، اس سے تمھیں ملالئے کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور دوسری لڑکیوں کو بھی اس کے بارے میں پتہ چلے گا۔

بیٹی: ہمارے اسکول نے دوبارہ احتیاطی تدابیر شروع کر دیں ہیں۔ مجھے دو سایرنوں میں فرق کرنا مشکل لگتا ہے۔ کونسہ سایرن اپنے آپ کو کلاسوں میں بند کرنے کا ہے اور کونسا باہر میدان میں اکٹھے ہونے کا ہے۔

میں: پہلا سایرن اس لیے ہے کہ اگر دھشت گرد اسکول میں داخل ہو جاتے ہیں تو تم لوگ اپنے اپ کو کلاسوں میں بند کر لو۔ اور دوسرے کا مقصد یہ لگتا ہے کہ اگر اسکول میں بم نصب کیا گیا ہو تو تم لوگ باہر آجاو۔ آج کل ویسے بھی بہت زیادہ بم کی جھوٹی اطلاع دے کر افرتفری پھیلانے کی کوشش ہو تی ہے۔

بیٹی: اس معاشرے میں اپنا اظہار بہت مشکل ہے۔ میں نے تو یہ سیکھا ہے کو انسان کو دبنا نہیں چاہیے اور اپنی بات کا اظہار کرنا چاہیے جیسےکہ آج میں نے اسکول میں کیا تھا۔

میں: ہاں، تمھیں یہ ضرور کرنا چاہیے۔

بیٹی: لیکن ایک لڑکی تعلیم کے لیے جدوجہد کیوں کرے؟سوات میں تعلیم کے لیے کوئی اور اس کی جگہ کیوں نہیں بولا؟