Dawn News Television

شائع 20 اکتوبر 2012 02:14pm

پاگل پن کی جڑیں

'کیا وہاں ہر شے ویسی ہی تھی جیسا کہ ہم ان کے بارے میں باتیں کرتے ہیں؟

یا ہم پاگل پن کی جڑیں کھارہے تھے کہ جس بنا پر ہمیں قید میں ڈالا گیا؟' ۔۔۔ میکبتھ، شیکسپیئر

ملالئے پر ہونے والے بزدلانہ حملے نے جہاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا، وہیں اس نے ہماری سیاست کو لگی اُس دیمک کو بھی بے نقاب کردیا جس کے باعث پاکستان کے سیاسی حلقوں  کی آواز نکل نہیں پارہی ہے۔

سوات کی بہادر بیٹی سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار نہ کرنے والوں نے ثابت کردیا کہ ان کی دلچسپی بہر صورت اقتدار حاصل کرنے میں ہے۔ یہ وہ ہیں جنہیں نہ تو انسانی اقدار کا احترام ہے اور نہ ہی یہ انسانی جذبات یا عقائد کی روح کا احترام کرنے جارہے ہیں۔۔

ملالئے پر حملہ ان لوگوں کے مذموم عزائم کی تازہ ترین مثال ہے، جنہیں وہ معاشرے کو لاحق مرض کی تشخیص کرنے والے لوگوں کو روکنے کے لیے کررہے ہیں۔

بظاہر صحت مند مگر بیمار ذہنوں والے ان حضرات کی قلابازی کا یہ مظاہرہ اس ذہنی بدعنوانی کا عکاس ہے، جسے اقتدار کی لت پڑچکی ہے چاہے یہ جیسے بھی حاصل ہو سکے۔

وہ جو ڈھٹائی کے ساتھ ملالئے پر کیے گئے حملے سے انکاری ہیں، دراصل یہ وہ رجعت پسند ہیں جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کو الجھانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

رجعتی سوچ والے مذہبی پیشواؤں کا یہ حملہ صرف ملالئے پر ہی نہیں، بلکہ اگر پوری ملکی آبادی پر نہیں تو کم ازکم اگلی پوری نسل پر ضرور ہے۔

یہ وہ عناصر ہیں جو میڈیا پر سچی بحث کے بجائے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اپنے مذموم اور گندے کھیل کو بے فکری سے جاری رکھ سکیں۔

اس مقصد کے لیے ڈرون حملوں اور پاکستان کے مختلف حصوں میں جاری تنازعات کے متاثرین کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا ایک گروہ ہے جسے پاکستانی باشندوں کا استحکام اور فرد کا احترام قطعی قبول نہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حامی زندگی کے ضائع ہونے میں فرق کو نظر انداز کردیں، چاہے جان کا زیاں تنازع میں ہو یا حادثے، آفت، جان بوجھ کر یا پھر ٹارگٹ کلنگ میں۔

ایسے عناصر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سول سوسائٹی جو آج ملالئ ےاور اس کے والدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہی ہے، انہوں نے ڈرون حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر کبھی احتجاج نہیں کیا یا پھر انہوں نے پاکستانی شہریوں پر امریکا اور نیٹو فورسز کے حملوں پر آواز نہیں اٹھائی۔ یہ استدلال صرف بیمار ذہن کی کلپنا ہوسکتی ہے۔

ہماری تاریخ کے کل کے وقائع نگار یہ بات بھول گئے کہ کس طرح ایک فرد کے اقدام نے دروغ گوئی کو للکارا ہے یا انہوں نے ہمت سے کام لیا اور اپنے ایک قدم سے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

انہیں، ہمیں یہ بتانے کی ضروت نہیں ہے کہ کیوں ہندہ نے حضرت حمزہ کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔ یہ اس جنگ میں پیش آنے والا نہایت بہیمانہ قصہ ہے جس میں نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم کے کئی قریبی ساتھی شہید ہوئے تھے جنہیں شاذ ہی کبھی یاد کیا جاتا ہے۔

طویل عرصہ بے حسی کے نظام میں زندگی بسر کرنے والا درے فس پہلا فرنچ نہیں تھا مگر اس کے سارے پیشرو گمنام ہوئے اور اسے مشہور صحافی زولا کے دو لفظوں نے امر بنا دیا: 'ذمہ دار تم!'

پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں یہ عین ممکن ہے کہ طرابلس کی فاطمہ کو آبروئے ملت قرار دے کر مسلم اُمّہ میں نئی روح بیدار کرنے کے جرم میں کہیں اقبال کے مزار پر حملہ نہ ہوجائے۔ حالانکہ اس وقت فاطمہ تنہا نہیں تھی۔ اس وقت کئی عورتوں نے لیبیا پر اٹلی کے حملے کے دوران اپنی جانیں گنوائیں تھیں۔

عوامی نظریات، بالخصوص نوجوانوں کے فکری استحصال کےتناظر میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔

جب ملالئے علم کے ایک استعارے کی صورت سامنے آئی  تو اس سے بچیوں اور عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی امنگ ملی۔ اس کے خیال نے تعلیم کے اس تصور کو چیلنج کیا، جو وہاں قائم کردیا گیا تھا. اس کی مخالفت کرنے والوں کا سیدھا سیدھا مقصد اس 'خطرناک' تصوّر کو غلط، گمراہ، اور باطل قرار دینا ہے

لوگوں کے لیے پیغام تھا کہ پھپوند زدہ ذہنوں والے نفرت کے مبلغین کے علاوہ، جو کچھ باہر سے تعلق رکھتا ہے وہ علم نہیں۔ حرکت اور کششِ ثقل کا قانون تعلیم کا حصہ نہیں اور تمام تر سائنسی علم شیطان کا پھیلایا ہوا وہ جال ہے جو خدا کے خداموں کے بیچ موجود بے خبر لوگوں کو پھانس رہا ہے۔

وہ لوگ جو ملالئے کے خلاف ہونے والے جرم کو شکوک و شبہات میں الجھانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ جمہوریت اور آئینِ پاکستان سے نفرت کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں بشمول پارلیمان اور عدلیہ کے۔

یہ اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو اسپین سے مسلمان حکمرانوں کی بے دخلی کا ذمہ دار بائیں بازو والوں کو قرار دیتے ہیں۔

یہ وہی ہیں جو گیارہ اگست انیس سّو سینتالیس کو قائدِ اعظم کی تقریر کے حوالے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی تقریر کی ہی نہیں تھی۔

اس قبیلے کے دیگر ارکان میں اس ڈاکٹر جیسے لوگ شامل ہیں، جس نے مصنف سے کہا کہ کوئی جہادی خودکش بمبار نہیں ہوسکتا بلکہ آئی ایس آئی نے خود کش بمبار تیار کیے ہیں تاکہ ان کی آڑ میں اسلام کے پرامن مذہب پسندوں کو بدنام کیا جاسکے۔

ساتھ ہی جامعات کے ان طالب علموں کو بھی ورغلایا جاسکے جو سوال اٹھاتے ہیں کہ اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ اور فاٹا میں حکومت لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کروارہی ہے۔

خونی جرائم کے منصوبے بنانے والوں کا متاثرین پر الزام دینے کا یہ حربہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔

لیکن کیا یہ بھی درست ہوگا کہ جو کچھ ملالئے اور بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوا، اس کا الزام صرف شدت پسندوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں میں موجود ان کے سرپرستوں کے سر ڈالا جائے یا پھر ان سیاستدانوں کے سر منڈھ دیا جائے جو اب تک ضیاء الحق کے نظریات سے وابستگی اختیار کیے ہوئے ہیں؟

کس طرح معاشرہ مذہبیت کے اس جرم کو برداشت کرنے کے الزام سے خود کو بری الذمہ رکھ سکتا ہے؟

جرم کو برداشت کرنا بھی جرم ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات پر عدم برداشت، اور 'دوسروں' پر ہونے والے مظالم سے لاتعلقی بھی تو جرم ہے؟

ملالئے پر ہونے والے حملے سے پاکستان کی حکمراں اشرافیہ  کی اس دہائیوں پرانی تاریخ کے جھوٹ کا بھی بھانڈا پھوٹ گیا ہے جو وہ اپنے خود ساختہ نظریات کی اطاعت قبول کرانے کے لیے بولتے رہے ہیں۔

ایک ہاتھ میں آزادی کا پھل اور دوسرے میں جمہوریت لے کر وہ لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف وہ مذہبِ امن کے داعی بنے تو دوسری طرف تعصب بھڑکاتے رہے ہیں۔

ہر شخص یہ بات کہہ رہا ہے کہ مسئلے کا قلیل المدت حل پاکستان کو سلامتی کی ضمانت فراہم نہیں کرسکے گا۔

اس مسئلے کا مکمل حل جمہوریت، آزادی اور برابری کی بنیاد پر ریاست کی تنظیم نو میں مضمر ہے۔ ورنہ سوچیے کہ آنے والے کل میں لاکھوں ملالاؤں کو مجرم  قرار دے کر قتل کردیا جائے گا۔

پاکستان کا معاشرہ ایک بار پھر کٹہرے میں ہے۔

وہ جنہوں نے ملالئے پر حملہ کیا یا وہ جو اُن کا دفاع کررہے ہیں، یہ وہ مراعات یافتہ پاکستانی ہیں جو پریشان ہیں کہ اگر ان کی مکاریوں اور عقائد کے نام پر فریب کاریوں کے خلاف عوام کی برداشت ختم ہوئی تو پھر اُن کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

اب ہر پاکستانی مرد اور عورت کو یہ بات ثابت کرنا ہے کہ اُن کے یہ خدشات حقیقت پر مبنی ہیں۔

یہ وہ واحد نتیجہ ہے جو ملالئے کی ہمت، معصومیت اور اسے پیش آنے والے واقعے سے کوئی بھی شخص نکال سکتا ہے۔

جب تک سول سوسائٹی اپنا کام پورا نہیں کرلیتی، ہمیں مستقبل سے یہ جھوٹی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ پاکستان دنیا میں، مستقبل پہ نظریں رکھنے والے لوگوں کی سرزمین بن کر ابھرے گا۔

Read Comments