۔— اے پی فائل فوٹو

'کیا وہاں ہر شے ویسی ہی تھی جیسا کہ ہم ان کے بارے میں باتیں کرتے ہیں؟

یا ہم پاگل پن کی جڑیں کھارہے تھے کہ جس بنا پر ہمیں قید میں ڈالا گیا؟' ۔۔۔ میکبتھ، شیکسپیئر

ملالئے پر ہونے والے بزدلانہ حملے نے جہاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا، وہیں اس نے ہماری سیاست کو لگی اُس دیمک کو بھی بے نقاب کردیا جس کے باعث پاکستان کے سیاسی حلقوں  کی آواز نکل نہیں پارہی ہے۔

سوات کی بہادر بیٹی سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار نہ کرنے والوں نے ثابت کردیا کہ ان کی دلچسپی بہر صورت اقتدار حاصل کرنے میں ہے۔ یہ وہ ہیں جنہیں نہ تو انسانی اقدار کا احترام ہے اور نہ ہی یہ انسانی جذبات یا عقائد کی روح کا احترام کرنے جارہے ہیں۔۔

ملالئے پر حملہ ان لوگوں کے مذموم عزائم کی تازہ ترین مثال ہے، جنہیں وہ معاشرے کو لاحق مرض کی تشخیص کرنے والے لوگوں کو روکنے کے لیے کررہے ہیں۔

بظاہر صحت مند مگر بیمار ذہنوں والے ان حضرات کی قلابازی کا یہ مظاہرہ اس ذہنی بدعنوانی کا عکاس ہے، جسے اقتدار کی لت پڑچکی ہے چاہے یہ جیسے بھی حاصل ہو سکے۔

وہ جو ڈھٹائی کے ساتھ ملالئے پر کیے گئے حملے سے انکاری ہیں، دراصل یہ وہ رجعت پسند ہیں جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کو الجھانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

رجعتی سوچ والے مذہبی پیشواؤں کا یہ حملہ صرف ملالئے پر ہی نہیں، بلکہ اگر پوری ملکی آبادی پر نہیں تو کم ازکم اگلی پوری نسل پر ضرور ہے۔

یہ وہ عناصر ہیں جو میڈیا پر سچی بحث کے بجائے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اپنے مذموم اور گندے کھیل کو بے فکری سے جاری رکھ سکیں۔

اس مقصد کے لیے ڈرون حملوں اور پاکستان کے مختلف حصوں میں جاری تنازعات کے متاثرین کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا ایک گروہ ہے جسے پاکستانی باشندوں کا استحکام اور فرد کا احترام قطعی قبول نہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حامی زندگی کے ضائع ہونے میں فرق کو نظر انداز کردیں، چاہے جان کا زیاں تنازع میں ہو یا حادثے، آفت، جان بوجھ کر یا پھر ٹارگٹ کلنگ میں۔

ایسے عناصر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سول سوسائٹی جو آج ملالئ ےاور اس کے والدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہی ہے، انہوں نے ڈرون حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر کبھی احتجاج نہیں کیا یا پھر انہوں نے پاکستانی شہریوں پر امریکا اور نیٹو فورسز کے حملوں پر آواز نہیں اٹھائی۔ یہ استدلال صرف بیمار ذہن کی کلپنا ہوسکتی ہے۔

ہماری تاریخ کے کل کے وقائع نگار یہ بات بھول گئے کہ کس طرح ایک فرد کے اقدام نے دروغ گوئی کو للکارا ہے یا انہوں نے ہمت سے کام لیا اور اپنے ایک قدم سے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

انہیں، ہمیں یہ بتانے کی ضروت نہیں ہے کہ کیوں ہندہ نے حضرت حمزہ کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔ یہ اس جنگ میں پیش آنے والا نہایت بہیمانہ قصہ ہے جس میں نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم کے کئی قریبی ساتھی شہید ہوئے تھے جنہیں شاذ ہی کبھی یاد کیا جاتا ہے۔

طویل عرصہ بے حسی کے نظام میں زندگی بسر کرنے والا درے فس پہلا فرنچ نہیں تھا مگر اس کے سارے پیشرو گمنام ہوئے اور اسے مشہور صحافی زولا کے دو لفظوں نے امر بنا دیا: 'ذمہ دار تم!'

پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں یہ عین ممکن ہے کہ طرابلس کی فاطمہ کو آبروئے ملت قرار دے کر مسلم اُمّہ میں نئی روح بیدار کرنے کے جرم میں کہیں اقبال کے مزار پر حملہ نہ ہوجائے۔ حالانکہ اس وقت فاطمہ تنہا نہیں تھی۔ اس وقت کئی عورتوں نے لیبیا پر اٹلی کے حملے کے دوران اپنی جانیں گنوائیں تھیں۔

عوامی نظریات، بالخصوص نوجوانوں کے فکری استحصال کےتناظر میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔

جب ملالئے علم کے ایک استعارے کی صورت سامنے آئی  تو اس سے بچیوں اور عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی امنگ ملی۔ اس کے خیال نے تعلیم کے اس تصور کو چیلنج کیا، جو وہاں قائم کردیا گیا تھا. اس کی مخالفت کرنے والوں کا سیدھا سیدھا مقصد اس 'خطرناک' تصوّر کو غلط، گمراہ، اور باطل قرار دینا ہے

لوگوں کے لیے پیغام تھا کہ پھپوند زدہ ذہنوں والے نفرت کے مبلغین کے علاوہ، جو کچھ باہر سے تعلق رکھتا ہے وہ علم نہیں۔ حرکت اور کششِ ثقل کا قانون تعلیم کا حصہ نہیں اور تمام تر سائنسی علم شیطان کا پھیلایا ہوا وہ جال ہے جو خدا کے خداموں کے بیچ موجود بے خبر لوگوں کو پھانس رہا ہے۔

وہ لوگ جو ملالئے کے خلاف ہونے والے جرم کو شکوک و شبہات میں الجھانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ جمہوریت اور آئینِ پاکستان سے نفرت کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں بشمول پارلیمان اور عدلیہ کے۔

یہ اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو اسپین سے مسلمان حکمرانوں کی بے دخلی کا ذمہ دار بائیں بازو والوں کو قرار دیتے ہیں۔

یہ وہی ہیں جو گیارہ اگست انیس سّو سینتالیس کو قائدِ اعظم کی تقریر کے حوالے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی تقریر کی ہی نہیں تھی۔

اس قبیلے کے دیگر ارکان میں اس ڈاکٹر جیسے لوگ شامل ہیں، جس نے مصنف سے کہا کہ کوئی جہادی خودکش بمبار نہیں ہوسکتا بلکہ آئی ایس آئی نے خود کش بمبار تیار کیے ہیں تاکہ ان کی آڑ میں اسلام کے پرامن مذہب پسندوں کو بدنام کیا جاسکے۔

ساتھ ہی جامعات کے ان طالب علموں کو بھی ورغلایا جاسکے جو سوال اٹھاتے ہیں کہ اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ اور فاٹا میں حکومت لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کروارہی ہے۔

خونی جرائم کے منصوبے بنانے والوں کا متاثرین پر الزام دینے کا یہ حربہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔

لیکن کیا یہ بھی درست ہوگا کہ جو کچھ ملالئے اور بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوا، اس کا الزام صرف شدت پسندوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں میں موجود ان کے سرپرستوں کے سر ڈالا جائے یا پھر ان سیاستدانوں کے سر منڈھ دیا جائے جو اب تک ضیاء الحق کے نظریات سے وابستگی اختیار کیے ہوئے ہیں؟

کس طرح معاشرہ مذہبیت کے اس جرم کو برداشت کرنے کے الزام سے خود کو بری الذمہ رکھ سکتا ہے؟

جرم کو برداشت کرنا بھی جرم ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات پر عدم برداشت، اور 'دوسروں' پر ہونے والے مظالم سے لاتعلقی بھی تو جرم ہے؟

ملالئے پر ہونے والے حملے سے پاکستان کی حکمراں اشرافیہ  کی اس دہائیوں پرانی تاریخ کے جھوٹ کا بھی بھانڈا پھوٹ گیا ہے جو وہ اپنے خود ساختہ نظریات کی اطاعت قبول کرانے کے لیے بولتے رہے ہیں۔

ایک ہاتھ میں آزادی کا پھل اور دوسرے میں جمہوریت لے کر وہ لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف وہ مذہبِ امن کے داعی بنے تو دوسری طرف تعصب بھڑکاتے رہے ہیں۔

ہر شخص یہ بات کہہ رہا ہے کہ مسئلے کا قلیل المدت حل پاکستان کو سلامتی کی ضمانت فراہم نہیں کرسکے گا۔

اس مسئلے کا مکمل حل جمہوریت، آزادی اور برابری کی بنیاد پر ریاست کی تنظیم نو میں مضمر ہے۔ ورنہ سوچیے کہ آنے والے کل میں لاکھوں ملالاؤں کو مجرم  قرار دے کر قتل کردیا جائے گا۔

پاکستان کا معاشرہ ایک بار پھر کٹہرے میں ہے۔

وہ جنہوں نے ملالئے پر حملہ کیا یا وہ جو اُن کا دفاع کررہے ہیں، یہ وہ مراعات یافتہ پاکستانی ہیں جو پریشان ہیں کہ اگر ان کی مکاریوں اور عقائد کے نام پر فریب کاریوں کے خلاف عوام کی برداشت ختم ہوئی تو پھر اُن کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

اب ہر پاکستانی مرد اور عورت کو یہ بات ثابت کرنا ہے کہ اُن کے یہ خدشات حقیقت پر مبنی ہیں۔

یہ وہ واحد نتیجہ ہے جو ملالئے کی ہمت، معصومیت اور اسے پیش آنے والے واقعے سے کوئی بھی شخص نکال سکتا ہے۔

جب تک سول سوسائٹی اپنا کام پورا نہیں کرلیتی، ہمیں مستقبل سے یہ جھوٹی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ پاکستان دنیا میں، مستقبل پہ نظریں رکھنے والے لوگوں کی سرزمین بن کر ابھرے گا۔

تبصرے (6) بند ہیں

fhad Oct 20, 2012 09:33am
bohat malala malala ho gya ab bas karo us ka ilaj ho raha he drone hamlo se jo shaheed ho jate he jo umar bahr ke lye mazoor ho jate hein dawn walo ko wo nazar nahi ate sirf malala hi nazr a rahi he
انور امجد Oct 21, 2012 06:04am
ملالہ پر حملے کو ہر پاکستانی نے اسطرح محسوس کیا جیسے کہ یہ حملہ اس کے اپنے خاندان کے فرد پر کیا گیا ہو۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اب اس قصہ کی آڑ میں ایک فضول بحث شروع ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ جو شائد تحریک طالبان پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں اس کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں جو غلط ہے۔ ایک چودہ سالہ بچی پر بندوق تاننا حد درجہ بزدلی ہے۔ اور عورتوں کو تعلیم دینا اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس بحث کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ چند سیکولر خیالات رکھنے والے لوگ پاکستان کے اسلامی معاشرے کو اس کی وجہ ثابت کرنے کے کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے ملک دہشت گرد نہیں بن جائے گا۔ پاکستان ایک موڈریٹ مسلمانوں کا ملک ہے۔ یہ نا کبھی طالبان ریاست بن سکتا ہے اور نہ سیکولر۔ سوات کے لوگوں نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔
Gulzar Oct 21, 2012 07:07am
The Innocent people who are killed is never wellcomed by any one and condemend by all even the attackers say they are sorry about it. But here the case is diffrent they attacked an Innoncent they are proud of it and say they will repeat it.
ارشد اقبال Oct 23, 2012 05:53am
آئی اے رحمان صاحب صحافت کی دنیا میں کسی تعریف کے محتاج نہیں. آپ نے اپنے اس کالم یا آرٹیکل میں بعض پاکستانیوں کے بیمار ذہنیت کا نقشہ کھینچا ہے اور سمندر کو کوزے میں بند کر کے پاکستان سمیت دنیا پر حقیقت واضح کی ہے. ملالہ یوسفزئی پرحملہ کرنے والے اتنے ظالم لوگ ہیں کہ یہ چاہتے ہی نہیں کہ ہماری آنے والی نسل بالخصوص ہماری بچیاں پڑھی لکھی اور دنیا سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل بھی دہشت گردی کے اندھیروں میں پلی بڑھے. ملالہ پر حملہ دراصل ہماری آنے والی معصوم بچیوں پر حملہ ہے لیکن افسوس کہ میڈیا کے بھی بعض لوگوں نے بھی ٹی ٹی پی کا موقف اپنا رکھا ہے جو ایک باعث شرم فعل ہے.
Haroon Oct 23, 2012 11:38am
Sorry to say; Jarein nai pakri ja sakein.
Irfan Raza Oct 23, 2012 12:29pm
In solidarity with Malala Yousafzai. Hypocrisy will die on its own feet. Masses of Pakistan are aware and they showed their unconditional love a 14-years brave girl. A one young girl, just a one young girl has attacked on the whole Army of Ignorants. The Extremists are armed with Guns, Suicide Jackets, Bombs and they are in tens of thousands. They got sophisticated communication and immense supports of those Aashrafia of Pakistan. But a 14-years old alone girl having pen, book, voice, courage, and a covered head has defeated the whole army.