Dawn News Television

شائع 22 اکتوبر 2012 10:19am

اصغر خان کیس فیصلے کے سیاسی اثرات

اسلام آباد: اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملک میں رائے عامہ کو تقسیم کر دیا ہے۔ آزاد سیاسی مبصرین اور غیر جانبدار قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی پولرائیزیشن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نےگزشتہ سولہ سالوں سے زیر التوا مقدمے کے فیصلے میں  پاکستان فوج کے سابق سربراہ اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کو انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔

فیصلے میں پی پی پی حکومت کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ وفاقی تحقیاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ذریعے آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف تحقیقات کرے۔

سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کے خیال میں آنے والے دنوں میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے پر مزید کیچڑ اچھالنا شروع کر دیں گی۔

اوراتوار کو ایسا ہی کچھ دیکھنے کو اُس وقت ملا جب قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد چوہدری نثارعلی خان پی پی پی پر برسے اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ن لیگ کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد اپنے بیانات کو ایک مرتبہ پھر دہرایا۔

ماہرین نے عدالتی فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس فیصلے نے سیاست میں ہونے والی بار بار فوجی مداخلت پر بات کرنے  کے بجائے ملک کی دو بڑی جماعتوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔

کالم نگار آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک نوے میں کس سیاست دان نے کتنی رقم لی فی الحال ایک ثانوی مسئلہ ہے۔

ان کے مطابق 'اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات آئندہ نہ دہرائے جائیں تاہم بدقسمتی سے سیاست دان اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہو گئے ہیں'۔

رحمان نے کہا کہ پوری دینا میں سیاست دان ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سچ اور مفاہمتی کمیشنز بناتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہم واپس نوے کی دہائی کی سیاست کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کے دوران آئی ایس آئی کی جانب سے سیاست دانوں کو رقوم کی فراہمی کے حقائق سامنے آ چکے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس سیاست دان نے کتنی رقم وصول کی۔ اب اس معاملے کی تحقیقات سے صرف سیاسی تلخی ہی جنم لے گی۔

عدالتی فیصلے کے پیراگراف چودہ میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ان سیاست دانوں کے خلاف شواہد اکھٹے کرے جنھوں نے نوے کے انتخابات سے قبل آئی ایس آئی سے رقوم وصول کی تھیں۔

جسٹس (ر) طارق محمود نے کہا کہ وہ پیراگراف چودہ  کے حوالے سے الجھاؤ کا شکار ہیں کیونکہ ان کی سمجھ کے مطابق ایف آئی اے کو اس قسم کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہے۔

جب ان کی توجہ ن لیگ کے آیف آئی اے سے تحقیقات کرانے پر تحفظات کی جانب مبزول کرائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ جماعت کی قیادت عدالت سے رجوع کر کے فیصلے کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی درخواست کر سکتی ہے۔

انہوں نے فیصلے سے جنم لینے والی سیاسی صورتحال پر افسردگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگرسنجیدہ حلقوں نے دانش مندی سے کام نہ لیا اور ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ جاری رہی تو آئندہ ہفتوں میں سیاسی ماحول میں تلخی بڑھ  جائے گی۔

ایک اور قانونی ماہر اسد جمال کے مطابق بہتر ہوتا اگرعدالت حکومت سے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے اور وہیں اسے طے کرنے کی ہدایت کرتی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کی حکومت کو ایف آئی اے کے ذریعے ن لیگ کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا جانا یقینی طور پر سیاسی ماحول کو گرما دے گا۔

اسد نے کہا کہ کون نہیں جانتا کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی کتنی مخالف ہیں اور اس طرح کے فیصلے کے سیاسی نتائج انتہائی ناخوشگوار ہو سکتے ہیں جن سے بلا آخر جمہوریت کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہے گا۔

Read Comments