Dawn News Television

شائع 02 جنوری 2013 02:37pm

انسانی حقوق یا اسکور سیٹل کرنے کا چکر

پڑوسی ملک ہندوستان میں ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کی ہلاکت کے بعد وہاں نئے سال کی بہت کم تقریبات ہوئیں۔ تیس سالہ طالبہ کے ساتھ سولہ دسمبر کو بس میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں چلتی بس سے نیچے پھینک دیا گیا۔

انہیں علاج کے لیے سنگا پور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ گزشتہ ہفتے انتقال کر گئیں۔ اس واقعے کے خلاف انڈیا بھر میں خاص طور پر دارلحکومت دلی میں زبردست احتجاج ہوتا رہا۔

انڈیا کے کئی اخبارات نے سیاہ حاشیے کے ساتھ خبر شایع کی جو کہ عام طور بڑے لوگوں کے انتقال پر کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی میت لینے نئی دہلی کے ایئر پورٹ پر پہنچے۔

اگرچہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی کوئی بہتر صورتحال نہیں ہے، مگر وہاں پر لوگوں میں اتنی آگہی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو ہمت نہیں ہوتی کہ کہ وہ کسی طرح سے ان واقعات میں ملوث ملزمان کی حمایت کریں۔

پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں سوسائٹی کا دباؤ کم ہے ۔ سیاسی جماعتیں اس طرح کے واقعات میں ملوث ملزمان کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو حکومت اور کرپٹ پولیس اور انتظامیہ کو اور موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہیں یا ملزمان کا تحفظ کریں۔

سندھ میں عمرکوٹ کے قریب غلام نبی شاہ کے مقام پر پانچ سالہ معصوم بچی وجینتی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بچی کے ساتھ زیادتی کے ملزمان بااثر تھے اور پولیس انہیں گرفتار نہ کر سکی۔

اس کیس میں انسانی حقو ق کے چار حوالے ہیں۔ اول یہ کہ وہ معصوم بچی تھی، دوئم یہ کہ اس کو مبینہ جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا، تیسرا یہ کہ اس کا تعلق اقلیتی گروہ اور شیڈیولڈ کاسٹ سے ہے۔

تین ہفتے تک وجنتی کے ورثاء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں عمرکوٹ سے لیکر کراچی تک ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وجنتی کے ساتھ زیادتی کی مذمت کی اورکراچی کے لیاری ہسپتال میں زیر علاج وجنتی کو گلدستہ بھیجا۔ بلاول بھٹو کی مذمت اور گلدستہ تو بچی کو مل گیا مگر انصاف نہیں ملا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے پیر پاگارا کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے وجینتی کے لواحقین اور زیرالزام منگریا برادری کے لوگ پیش ہوئے۔ منگریہ برادی پیر پاگارا کی مرید ہے۔ زیر الزام شخص کے قریبی عزیز نے ساکھ (معززین کے سامنے حلفیہ بیان) دی کہ رفیق منگریہ واقعے میں ملوث نہیں۔ یہ ساکھ متاثرہ فریق نے قبول کرلی۔ وجینتی کے والدین اس ساکھ کو کیسے قبول نہ کرتے۔ آخر ان کو بھی ادھر رہنا ہے۔

وجینتی کے ساتھ زیادتی کے خلاف مختلف تنظیمیں احتجاج کرتی رہیں ہیں۔ سندھ میں انسانی حقوق کی ایم کیو ایم سے وابستہ مشیر نادیہ گبول نے بھی نوٹس لیا اور ملزمان کو تین روز کے اندر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا مگر دو ہی دن بعد جرگہ ہوا اور معافی تلافی ہوگئی۔

سوال یہ ہے کہ جب مقدمہ درج ہوا تھا، میڈیکل رپورٹ بھی جنسی زیادتی کی تصدیق کر رہی تھیں، ملزم کی بھی شناخت ہو گئی تھی۔ تو یہ فیصلہ کیسے ہوگیا؟ کیا ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا؟

یہ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ سردار علی محمد مہر کے وزارت اعلیٰ کے دور میں شائستہ عالمانی کے کیس میں ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی تھی۔ شائستہ عالمانی کیس ایک جوڑے کی مرضی کی شادی کا معاملہ تھا اور ایم کیو ایم کو وزیراعلیٰ علی محمد مہر سے ناراضگی تھی۔ لیکن اس مرتبہ شاید حکومت سے ایم کیو ایم کی کوئی سیاسی ناراضگی نہیں تھی یا وہ اس کا اظہار اس طرح سے کرنا نہیں چاہ رہی تھی یا وجینتی کا کیس اٹھانے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔

وجینتی کے ساتھ جنسی زیادتی کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی مذمت بظاہر ایک خوش آئند بات نظر آتی ہے، مگر انہوں نے ایسا قدم رینکل، ڈاکٹر لتا اور آشا کے کیس میں نہیں اٹھایا جہاں انکی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ملوث بتائے جا رہے تھے۔

کیا وجینتی کے کیس میں بلاول اس وجہ سے پرجوش نظر آئے کہ ملزم کا تعلق پیر پاگارا کی پارٹی فنکشنل لیگ سے تھا۔ ایم کیو ایم کی ناراضگی بھی پارٹی سے وابستہ مشیر کے بیان جاری کرنے کی حد تک ہی رہی۔

گزشتہ ہفتے تھرپارکر میں مبارک رند گاؤں میں چودہ سالہ بھیل خاندان کی ایک لڑکی نتھو بائی کو دو افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں پیپلز پارٹی تحصیل چھاچھرو کے جنرل سیکریٹری کے ایک قریبی رشتہ دار ملوث بتائے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے مقامی عہدیداران ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لگتا نتھوبائی کا معاملہ بھی انہی وجوہات سے دب جائے گا جن کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔

رواں سال کے شروع میں تین ہندو لڑکیوں رینکل کماری، ڈاکٹر لتا اور آشا کے اغوا اور ان کو مسلمان کرکے شادی کرنے کا معاملہ میڈیا میں زور شور سے اٹھا۔ بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اور سپریم کورٹ نے بھی معاملے کا نوٹس لیا۔

واقعہ کا الزام پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے اور پیر آف بھرچونڈی شریف عبدالحق میاں مٹھو پرلگایا گیا کہ وہ نوجوان ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے اور ان کی مسلمان نوجوانوں سے شادی کرانے میں ملوث ہیں۔

میڈیا اورسول سوسائٹی کی زبردست تنقید کے بعدحکمران جماعت پیپلز پارٹی پردباؤ بڑھ گیا ۔ اورمطالبہ کیا جانے لگا کہ پارٹی اقلیتوں کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور پیپلز پارٹی سے مطالبہ کیا کہ میاں عبدالحق مٹھو سے قومی اسمبلی کی سیٹ خالی کرائی جائے۔

پیپلز پارٹی کچھ عرصے تک میاں مٹھو کا دفاع کرتی رہی لیکن جب پانی سر سے چڑھ گیا تو اس عمل کو میاں مٹھو کا ذاتی فعل قرار دے دیا گیا۔ پارٹی کو اتنی جرأت نہ ہوسکی کہ وہ میاں مٹھو کے خلاف کارروائی کرے یا ان کی پارٹی یا اسمبلی کی رکنیت ختم کرے۔

سکیولر ازم اور جمہوری ہونے کی دعویدار ملک کی بڑی پارٹی اپنے ایم این ای کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکی۔اب کہا جارہا ہے کہ پارٹی آئندہ انتخابات میں میاں مٹھو کو پارٹی ٹکٹ نہیں دی جائے گی۔

اسے شومی قسمت کہئیے کہ دوسری جماعتیں پیر آف بھرچونڈی کو ٹکٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ میاں مٹھو کا کہنا ہے کہ پیرپاگارا کی مسلم لیگ فنکشنل، نواز لیگ اور تحریک انصاف نے ان سے رابطے کئے ہیں۔

میاں مٹھونے یہ تصدیق بھی کی کہ رینکل کے معاملے پر پیپلز پارٹی ناراض ہے اور انہیں ٹکٹ نہیں دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیرمسلم کو مسلمان کرنا ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ ٹکٹ کے لیے ایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔

فنکشنل لیگ، نوا زلیگ اور عمران خان کی تحریک انصاف کو سندھ میں ایسے بااثر لوگوں کی تلاش ہے جو امیدوار بن سکیں۔ میاں مٹھو آسانی سے ان میں سے کسی جماعت میں جگہ حاصل کرسکتے ہیں۔

سندھ میں اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط رائے عامہ موجودہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں بیانات کی حد تک ان کے تحفظ کا اعادہ کرتی ہیں مگر سیاسی ارادے کی مضبوطی خال خال نظر آتی ہے۔

سیاسی جماعتیں بااثر لوگوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں انتخابات میں نہ صرف مضبوط امیدواروں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ووٹوں کی بھی۔ جو صرف یہ وڈیرے اور بااثر لوگ ہی دلا سکتے ہیں۔ ویسے بھی وہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں سو وہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں جاسکتے۔

رینکل، ڈاکٹر لتا اور آشا کے مقدمات میں سیاستداں اور مذہبی حلقے حاوی رہے۔ وجینتی کے معاملے میں ایک بار پھر سیاستداں اور بااثر لوگ حاوی ہوئے اور وجینتی انصاف سے محروم ہی رہی۔

ہم ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جہاں ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجود ہر ماہ آدھا درجن جرگے ہوتے ہیں۔ جہاں وڈیروں اور سرداروں کی نجی عدالتوں کے ذریعے پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں اور ان کے لواحقین کو غیر منطقی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اکثر جرگوں کی سربراہی وزراء یا اسمبلی ممبران کرتے ہیں۔

سیاست عوام کی خدمت کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا نام ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا مگر کیا سیاست اتنی بیدرد ہوتی ہے یابنا دی گئی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق او زیادتی کے معاملے پر صرف اسکور سیٹل کئے جاتے ہیں۔

کیا لوگ سیاستدانوں کو انتخابات کے وقت یا بذریعہ احتجاج سمجھا یا مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کی پشت پناہی نہ کریں؟ اور یہ کہ انسانی حقوق پراسکور سیٹل نہ کریں۔

کیا سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنے مقامی لیڈروں اور حامیوں پر یہ بات واضح کرنے میں ناکام ہی رہیں گی کہ وہ خواتین یا اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی صورت میں ان سے کسی مدد کی توقع نہ رکھیں؟

Read Comments