Rankel 670
رینکل کماری کیس کے حوالے سے اقلیتی مؤقف کی حمایت میں نکالی جانے والی ایک ریلی کا منظر۔۔۔۔۔۔۔فوٹو بشکریہ سہیل سانگی

پڑوسی ملک ہندوستان میں ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کی ہلاکت کے بعد وہاں نئے سال کی بہت کم تقریبات ہوئیں۔ تیس سالہ طالبہ کے ساتھ سولہ دسمبر کو بس میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں چلتی بس سے نیچے پھینک دیا گیا۔

انہیں علاج کے لیے سنگا پور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ گزشتہ ہفتے انتقال کر گئیں۔ اس واقعے کے خلاف انڈیا بھر میں خاص طور پر دارلحکومت دلی میں زبردست احتجاج ہوتا رہا۔

انڈیا کے کئی اخبارات نے سیاہ حاشیے کے ساتھ خبر شایع کی جو کہ عام طور بڑے لوگوں کے انتقال پر کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی میت لینے نئی دہلی کے ایئر پورٹ پر پہنچے۔

اگرچہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی کوئی بہتر صورتحال نہیں ہے، مگر وہاں پر لوگوں میں اتنی آگہی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو ہمت نہیں ہوتی کہ کہ وہ کسی طرح سے ان واقعات میں ملوث ملزمان کی حمایت کریں۔

پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں سوسائٹی کا دباؤ کم ہے ۔ سیاسی جماعتیں اس طرح کے واقعات میں ملوث ملزمان کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو حکومت اور کرپٹ پولیس اور انتظامیہ کو اور موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہیں یا ملزمان کا تحفظ کریں۔

سندھ میں عمرکوٹ کے قریب غلام نبی شاہ کے مقام پر پانچ سالہ معصوم بچی وجینتی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بچی کے ساتھ زیادتی کے ملزمان بااثر تھے اور پولیس انہیں گرفتار نہ کر سکی۔

اس کیس میں انسانی حقو ق کے چار حوالے ہیں۔ اول یہ کہ وہ معصوم بچی تھی، دوئم یہ کہ اس کو مبینہ جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا، تیسرا یہ کہ اس کا تعلق اقلیتی گروہ اور شیڈیولڈ کاسٹ سے ہے۔

تین ہفتے تک وجنتی کے ورثاء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں عمرکوٹ سے لیکر کراچی تک ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وجنتی کے ساتھ زیادتی کی مذمت کی اورکراچی کے لیاری ہسپتال میں زیر علاج وجنتی کو گلدستہ بھیجا۔ بلاول بھٹو کی مذمت اور گلدستہ تو بچی کو مل گیا مگر انصاف نہیں ملا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے پیر پاگارا کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے وجینتی کے لواحقین اور زیرالزام منگریا برادری کے لوگ پیش ہوئے۔ منگریہ برادی پیر پاگارا کی مرید ہے۔ زیر الزام شخص کے قریبی عزیز نے ساکھ (معززین کے سامنے حلفیہ بیان) دی کہ رفیق منگریہ واقعے میں ملوث نہیں۔ یہ ساکھ متاثرہ فریق نے قبول کرلی۔ وجینتی کے والدین اس ساکھ کو کیسے قبول نہ کرتے۔ آخر ان کو بھی ادھر رہنا ہے۔

وجینتی کے ساتھ زیادتی کے خلاف مختلف تنظیمیں احتجاج کرتی رہیں ہیں۔ سندھ میں انسانی حقوق کی ایم کیو ایم سے وابستہ مشیر نادیہ گبول نے بھی نوٹس لیا اور ملزمان کو تین روز کے اندر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا مگر دو ہی دن بعد جرگہ ہوا اور معافی تلافی ہوگئی۔

سوال یہ ہے کہ جب مقدمہ درج ہوا تھا، میڈیکل رپورٹ بھی جنسی زیادتی کی تصدیق کر رہی تھیں، ملزم کی بھی شناخت ہو گئی تھی۔ تو یہ فیصلہ کیسے ہوگیا؟ کیا ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا؟

یہ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ سردار علی محمد مہر کے وزارت اعلیٰ کے دور میں شائستہ عالمانی کے کیس میں ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی تھی۔ شائستہ عالمانی کیس ایک جوڑے کی مرضی کی شادی کا معاملہ تھا اور ایم کیو ایم کو وزیراعلیٰ علی محمد مہر سے ناراضگی تھی۔ لیکن اس مرتبہ شاید حکومت سے ایم کیو ایم کی کوئی سیاسی ناراضگی نہیں تھی یا وہ اس کا اظہار اس طرح سے کرنا نہیں چاہ رہی تھی یا وجینتی کا کیس اٹھانے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔

وجینتی کے ساتھ جنسی زیادتی کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی مذمت بظاہر ایک خوش آئند بات نظر آتی ہے، مگر انہوں نے ایسا قدم رینکل، ڈاکٹر لتا اور آشا کے کیس میں نہیں اٹھایا جہاں انکی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ملوث بتائے جا رہے تھے۔

کیا وجینتی کے کیس میں بلاول اس وجہ سے پرجوش نظر آئے کہ ملزم کا تعلق پیر پاگارا کی پارٹی فنکشنل لیگ سے تھا۔ ایم کیو ایم کی ناراضگی بھی پارٹی سے وابستہ مشیر کے بیان جاری کرنے کی حد تک ہی رہی۔

گزشتہ ہفتے تھرپارکر میں مبارک رند گاؤں میں چودہ سالہ بھیل خاندان کی ایک لڑکی نتھو بائی کو دو افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں پیپلز پارٹی تحصیل چھاچھرو کے جنرل سیکریٹری کے ایک قریبی رشتہ دار ملوث بتائے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے مقامی عہدیداران ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لگتا نتھوبائی کا معاملہ بھی انہی وجوہات سے دب جائے گا جن کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔

رواں سال کے شروع میں تین ہندو لڑکیوں رینکل کماری، ڈاکٹر لتا اور آشا کے اغوا اور ان کو مسلمان کرکے شادی کرنے کا معاملہ میڈیا میں زور شور سے اٹھا۔ بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اور سپریم کورٹ نے بھی معاملے کا نوٹس لیا۔

واقعہ کا الزام پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے اور پیر آف بھرچونڈی شریف عبدالحق میاں مٹھو پرلگایا گیا کہ وہ نوجوان ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے اور ان کی مسلمان نوجوانوں سے شادی کرانے میں ملوث ہیں۔

میڈیا اورسول سوسائٹی کی زبردست تنقید کے بعدحکمران جماعت پیپلز پارٹی پردباؤ بڑھ گیا ۔ اورمطالبہ کیا جانے لگا کہ پارٹی اقلیتوں کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور پیپلز پارٹی سے مطالبہ کیا کہ میاں عبدالحق مٹھو سے قومی اسمبلی کی سیٹ خالی کرائی جائے۔

پیپلز پارٹی کچھ عرصے تک میاں مٹھو کا دفاع کرتی رہی لیکن جب پانی سر سے چڑھ گیا تو اس عمل کو میاں مٹھو کا ذاتی فعل قرار دے دیا گیا۔ پارٹی کو اتنی جرأت نہ ہوسکی کہ وہ میاں مٹھو کے خلاف کارروائی کرے یا ان کی پارٹی یا اسمبلی کی رکنیت ختم کرے۔

سکیولر ازم اور جمہوری ہونے کی دعویدار ملک کی بڑی پارٹی اپنے ایم این ای کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکی۔اب کہا جارہا ہے کہ پارٹی آئندہ انتخابات میں میاں مٹھو کو پارٹی ٹکٹ نہیں دی جائے گی۔

اسے شومی قسمت کہئیے کہ دوسری جماعتیں پیر آف بھرچونڈی کو ٹکٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ میاں مٹھو کا کہنا ہے کہ پیرپاگارا کی مسلم لیگ فنکشنل، نواز لیگ اور تحریک انصاف نے ان سے رابطے کئے ہیں۔

Rankle 670
رینکل کماری۔۔۔۔۔۔۔فوٹو بشکریہ سہیل سانگی

میاں مٹھونے یہ تصدیق بھی کی کہ رینکل کے معاملے پر پیپلز پارٹی ناراض ہے اور انہیں ٹکٹ نہیں دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیرمسلم کو مسلمان کرنا ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ ٹکٹ کے لیے ایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔

فنکشنل لیگ، نوا زلیگ اور عمران خان کی تحریک انصاف کو سندھ میں ایسے بااثر لوگوں کی تلاش ہے جو امیدوار بن سکیں۔ میاں مٹھو آسانی سے ان میں سے کسی جماعت میں جگہ حاصل کرسکتے ہیں۔

سندھ میں اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط رائے عامہ موجودہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں بیانات کی حد تک ان کے تحفظ کا اعادہ کرتی ہیں مگر سیاسی ارادے کی مضبوطی خال خال نظر آتی ہے۔

سیاسی جماعتیں بااثر لوگوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں انتخابات میں نہ صرف مضبوط امیدواروں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ووٹوں کی بھی۔ جو صرف یہ وڈیرے اور بااثر لوگ ہی دلا سکتے ہیں۔ ویسے بھی وہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں سو وہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں جاسکتے۔

رینکل، ڈاکٹر لتا اور آشا کے مقدمات میں سیاستداں اور مذہبی حلقے حاوی رہے۔ وجینتی کے معاملے میں ایک بار پھر سیاستداں اور بااثر لوگ حاوی ہوئے اور وجینتی انصاف سے محروم ہی رہی۔

ہم ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جہاں ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجود ہر ماہ آدھا درجن جرگے ہوتے ہیں۔ جہاں وڈیروں اور سرداروں کی نجی عدالتوں کے ذریعے پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں اور ان کے لواحقین کو غیر منطقی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اکثر جرگوں کی سربراہی وزراء یا اسمبلی ممبران کرتے ہیں۔

سیاست عوام کی خدمت کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا نام ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا مگر کیا سیاست اتنی بیدرد ہوتی ہے یابنا دی گئی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق او زیادتی کے معاملے پر صرف اسکور سیٹل کئے جاتے ہیں۔

کیا لوگ سیاستدانوں کو انتخابات کے وقت یا بذریعہ احتجاج سمجھا یا مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کی پشت پناہی نہ کریں؟ اور یہ کہ انسانی حقوق پراسکور سیٹل نہ کریں۔

کیا سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنے مقامی لیڈروں اور حامیوں پر یہ بات واضح کرنے میں ناکام ہی رہیں گی کہ وہ خواتین یا اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی صورت میں ان سے کسی مدد کی توقع نہ رکھیں؟

تبصرے (13) بند ہیں

Abdul Razaque Chhachhar Jan 02, 2013 01:40pm
Abdul Razaque Chhachhar There are many cases have been registered in Sindh regarding rape cases with children and most of them the culprits are free because they have affiliation with different parties and groups therefore police does not take any action against them.
HUSSAIN SAARANG Jan 02, 2013 03:25pm
GOOD ARTICLE
om parkash Jan 02, 2013 03:37pm
here in our society a complex scenario has been created, on one hand feudalism, partial capitalism and ngo sector dominated the situation and on other hand state itself failed in implementing so called laws. so these social problems are not only yield on recent mishaps but these seeds were sown much earlier. it will remain continue if not treated well,
نزر بلوچ Jan 02, 2013 04:25pm
جناب...مجھ سے بھتر سیا ست کو آپ جانتے ھین.ھم نے ھمیشہ سندہیون کو فالو کیا ہے.بلاول ابھی بچہ ھے.اس کے استاد جیسے کہیں گے وہ ویسا ھی کرے گا.آپ ھمارے استاد ہیں ھمیں بتاںیں کہ ھم کیا کریں؟
Aziz Ahmed Talpur Jan 02, 2013 08:00pm
Wadera atrocity must come to an end, we not only have rape and forced marriage cases, unfortunately every sector of society is influenced by feudals. Recent hundreds deaths of children due to measles in Sindh is one of many examples! How can a healthy society grow under vested-interested people, does PPP government have any moral right to govern?
Ghansham Sheyam Jan 03, 2013 02:06am
Having published above column for minority purpose,Dawn media Group is highly appreciatable and it is hoped it will be carried on further as minority may get their rights. Thanks
samia Jan 03, 2013 04:11am
ye hmary mulak ka haal hy ......kch kr nhe skhty seto pe beth k bs mike pe 2 sy 4 dialoug bolny ko pana faraz samhajty hy ...... lagta hy en k diloo me insanyat bhe baqe nhe rahe....ziaditi ko mamole baat samaj k darguzar krdety hy........... ehsaas tab ho jin k ghar waloo k 7 ho tb en ki geraat jagayy ge................kb hiddyat hoge hmary hukmaranooooo ko.....
Rajkumar Jan 03, 2013 07:33am
After one day of Deewali , Rinkle called her mother , she was weeping and crying and saying that she is sick and got aborted 3rd time. Mom save me, mom save.......................................mom save me.
shankardas Jan 03, 2013 07:42am
آپ کا یہ آرٹیکل کافی اچھا لگا . لیکن آپ بات آپ کو بتاتا چلوں ک رنکل معاملے کا نوٹس سپریم کورٹ نے نہیی لیا وہ تو پٹیشن داخل کی تھی. میاں مٹھو اور اس کا بیٹا میاں اسلم ابھی تک آزاد گھوم رہا ہے.
Chettan Kumar Jan 03, 2013 02:19pm
Dear Sangi sahib, You are 100% right that there is no justice with vulnerable communities in our country, particular minorities are ignored at all level in each government but PPP government 2008-2013 has crossed all limitations. according to some figures & media reports that the ratio of migration ,rape cases, kidnap cases and conversion of religion cases have increased in this government. minorities are confused that what they do and where they go for justice. now they are in complex and in tension and tension. Additional why other parties are agreed to give ticket to Mr. Mian Mitho. if other parties are sincere with minorities or vulnerable communities in Pakistan they should ignored to him. Due to injustice may be all minority groups will not participate in the coming election 2013.
sona Jan 03, 2013 02:28pm
humare mulk ka ye almia he ya tou hm apne hk k ly or burai k khilaf awaz othate he nh agr koi bolna b chahta h tou ose chup kra dea jata h.siyasatdan sirf apni jaiben bhar rahen hen is nazuk or sharamnak mouzo pr b ksi megunah ki zindagi tabah va brbad hone k bawajod vo apne mafadat nh chorte awam k masail pr aa kr inki sb takreren wade or ikhtiaraat khatam hojate hen.jb tk ye koum or is k log sirf khud k ly nh bl k hmare ly socheney lg jaye or hr hadse ko khud pr rkh kr sochen tou vo khud hr begunah ko iske na krda gunah pe insaf or gunahgar ko kri se kri saza zrorrrrr dilva skte hen. . .
Makhijani Suresh Jan 03, 2013 03:25pm
Suhail Sangi Sahib has taken the issue of human rights in very effective manner. Surprisingly, civil society is still silent over the role of political parties regarding human rights' laws, their effectiveness and execution. Actually role of civil society (NGOs etc) itself is also questionable. Perhaps they don't believe in any collective, effective and result oriented action regarding human rights. This evolves an impression that their activities are focused on self projection and some visible "performance" only.
Abdul Wahab Jan 05, 2013 06:58pm
انسانی حقوق کا معاملہ خاص طور پر پچھڑے ہوئے طبقات جس میں عورتیں، اقلیتیں، کسان اور مزدور سر فہرست ہیں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے. اس تحریر سے عیاں ہے کہ بالادست طبقے کے لوگ کو اقتدار اورانتظامیہ میں ہیں کس طرح سے غریب اور پچھڑے ہوئے طبقوں کے حقوق غصب کرتے ہیں. اور کس طرح سے یہ بالادست طبقے اس طرح کے معاملات میں کٹھے ہو جاتے ہیں. اس تحریر سے اس مکینزم کا بھی سراغ ملتا ہے جو ان مظلوم طبقات کو حقوق سے محرام رکھے ہوئے ہے.آج کے دور میں جمہوریت صرف ووٹ ڈالنا نہیں رہا، انسانی حقوق بھی اس کا نا جدا ہونے والا حصہ ہیں.