گریجویشن کے بعد 50 فیصد خواتین ڈاکٹرز کبھی کام نہیں کرتیں

22 اکتوبر 2014
ایک خاتون ڈاکٹر دادو کے ایک گاؤں میں موبائل ہیلتھ کلینک میں ایک خاتون مریضہ کا معائنہ کررہی ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
ایک خاتون ڈاکٹر دادو کے ایک گاؤں میں موبائل ہیلتھ کلینک میں ایک خاتون مریضہ کا معائنہ کررہی ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

اسلام آباد: پاکستان میں یہ تصور عام ہے کہ ان پڑھ لوگ خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور لڑکیوں کو تعلیم فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کا ایک مؤثر حصہ بن سکیں۔

لیکن منگل کے روز ایک نیوز کانفرنس کے شرکاء کو اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ میڈیکل کالجز سے گریجویشن کرنے والی تقریباً پچاس فیصد خواتین کام نہیں کرتی ہیں۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے صدر پروفیسر مسعود حمید نے نیوز کانفرنس کو بتایا کہ میڈیکل کی خواتین طالبعلموں نے سرکاری میڈیکل کالجوں میں عام میرٹ سیٹس پر قبضہ کرکے سبسڈی حاصل کرلی ہے، لیکن وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز نہیں کرتیں۔

ڈاکٹر مسعود حمید نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 78 ہزار سینتس مرد اور 65 ہزار تین سو چوبیس خواتین ڈاکٹرز ہیں، جبکہ پانچ ہزار چار سو بیس مرد دانتوں کے ڈاکٹر اور آٹھ ہزار تین سو خواتین ڈاکٹر ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹس کرنے والے کل ڈاکٹروں میں تقریباً پچاس فیصد خواتین ہیں۔

انہوں نے کہا ’’صرف پچاس فیصد خواتین ڈاکٹر کام کررہی ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر مرد ہیں، ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ ملک میں اس وقت لگ بھگ پچاس سے ساٹھ ہزار میڈیکل پریکٹشنرز موجود ہیں، جبکہ ملک میں چھ لاکھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔‘‘

ڈاکٹر مسعود حمید نے کہا ’’ہمیں مزید میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ہر سال لگ بھگ چودہ ہزار ڈاکٹرز تیار ہوتے ہیں، جن میں سے 70 فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ یہ خدشہ ہے کہ ان میں سے تقریباً پچاس فیصد میڈکل کی طالبات کبھی کام نہیں کریں گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر شہری کی صحت کی دیکھ بھال پر صرف 9.3 ڈالرز سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ اس کے برخلاف عالمی معیار 60 ڈالرز سالانہ ہے۔

ان کا کہنا تھا ’’محدود وسائل اور ڈاکٹروں کی محدود تعداد کے ساتھ پاکستان صحت کے حوالے سے اپنی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا۔‘‘

اس کے علاوہ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں کی بیرون ملک منتقلی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان (سی پی ایس پی) نے اب تک صرف بتیس ہزار آٹھ سو اسپیشلسٹ تیار کیے ہیں، جن میں سے چالیس فیصد ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ لہٰذا یہاں صرف بیس ہزار اسپیشلسٹ موجود ہیں، جبکہ ایک لاکھ اسپیشلسٹ کی ملک کو ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مسعود حمید نے کہا کہ ملک میں اسپیشلسٹ کا خلاء پُر نہیں کیا جاسکا ہے۔

’’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو بعض عناصر کی جانب سے کام کرنے سے روکا جارہا ہے۔ انہوں نے پی ایم ڈی سی کو بطور ایک نگران ادارے کے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال جو اساتذہ تیار کیے جارہے ہیں، وہ معیار پر پورے نہیں اترتے، یہی وجہ ہے کہ میڈیکل کی تعلیم کا معیار گرتا جارہا ہے۔

جبکہ ڈان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مسعود حمید نے مزید بتایا کہ عام میرٹ سیٹس پر میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے طالبعلم تقریباًپندرہ ہزار سے بیس ہزار سالانہ فیس ادا کرتے ہیں، لہٰذا اُن کے ایم بی بی ایس کی تکمیل تک لگ بھگ ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’دوسری جانب حکومت ایم بی بی ایس کے ہر ایک طالبعلم پر تقریباً پچیس لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔ بدقسمتی سے کورس مکمل ہونے کے بعد میڈیکل کی زیادہ تر خواتین گریجویٹس کبھی کام نہیں کرتیں۔ اور جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں، وہ ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک خصوصاً امریکا، سعودی عرب آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

’’امریکا دوسرے ملکوں سے ڈاکٹروں کے حصول کو ترجیح دیتا ہے، اس لیے کہ وہ ہر ڈاکٹر کی تیاری پر ڈھائی لاکھ ڈالرز خرچ کرتا ہے۔ لہٰذا امریکا دوسرے ملکوں سے ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرتا ہے اور یہ رقم صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے۔‘‘

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے ایک تجویز تیار کی ہے، جس کے تحت میڈیکل کالجوں میں جنرل سیٹ پر داخلہ لینے والے ہر ایک طالبعلم کے لیے لازم ہوگا کہ وہ گریجویشن کرنے کے بعد ملک میں سرکاری یا نجی شعبے کے اندر کم از کم تین سال تک کام کرے۔

اور جو بیرون ملک جانا چاہتے ہوں، وہ چوبیس لاکھ روپے ادا کریں، جو ان کی میڈیکل تعلیم پر حکومت نے خرچ کیے تھے۔

انہوں نے کہا ’’اس کے علاوہ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ایسے ڈاکٹر جنہوں نے عام میرٹ سیٹس پر تعلیم حاصل کی ہے اور اس وقت اچھا کمارہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ سبسڈی کی رقم حکومت کو واپس کردیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک مشترکہ فنڈ بنانا چاہیے اور ڈاکٹروں سے کہنا چاہیے کہ وہ سبسڈی کی رقم اس میں جمع کرائیں۔ یہ رقم صحت کے شعبے میں خرچ کی جاسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں