حتمی جنگ

30 نومبر 2014
کیا عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بڑا مجمع اکٹھا کر کے وہ پورا سسٹم گرا سکتے ہیں؟
کیا عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بڑا مجمع اکٹھا کر کے وہ پورا سسٹم گرا سکتے ہیں؟

ان کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے، اور عمران خان کا لہجہ بھی غصیلہ اور سخت تر ہوتا جارہا ہے۔ وہ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکی حکومت پر اپنے تابڑ توڑ حملوں کے ذریعے اپنے سننے والوں کو مسحور کیے رکھتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے لوگوں کی بڑھتی ہوئی سپورٹ اصل میں ایک سوئے ہوئے اور اپنے فائدے کے لیے چلتے سسٹم کے خلاف بڑھتا ہوا عوامی ردِ عمل ہے۔ بھلے ہی 'نئے پاکستان' کے دعویدار جناب کے ساتھ پرانی عمارت کی اینٹیں بھی موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود اسی جماعت کو تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

عمران خان اس چیز کے لیے بالکل تیار ہیں، جسے انہوں نے 'حتمی جنگ' کا نام دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے اور وہ مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے 30 نومبر کے دن کو اپنے اس آخری حملے کے لیے منتخب کیا ہے۔ پچھلے تین مہینوں کے دوران حکومت سے ہار منوانے کے لیے یہ ان کی دوسری کوشش ہوگی۔

ایسا لگتا ہے کہ پنجاب، جو اب سیاست کا مرکزی میدانِ جنگ بن چکا ہے، میں اپنے حالیہ جلسوں میں عوام کی بے پناہ حمایت دیکھنے کے بعد ان کا اعتماد بڑھ چکا ہے۔ طاقتور سویلین بیوروکریٹک اسٹیبلشمنٹ میں ایک واضح تفریق نے بھی ان کے باقی رہنے میں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن کیا پی ٹی آئی وہ حاصل کرسکے گی جو وہ اس طویل دھرنے کے دوران حاصل نہیں کرپائی ہے؟ طاہر القادری کے پرعزم پیروکاروں کی غیرموجودگی میں پی ٹی آئی کے نوجوان مڈل کلاس حامیوں کی جمے رہنے کی ہمت تھوڑی مشکوک ہے۔

عوامیت پسند اور شورش کی سیاست کی اپنی حدود ہیں۔ جلسوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو لانا، اور ان کے بل پر ایک منتخب حکومت کو گرانا، جو بھلے ہی کتنی ہی نااہل اور کمزور ہو، دو الگ الگ باتیں ہیں۔ امید تھی کہ عمران خان نے اپنی پچھلی کوشش سے سبق سیکھا ہوگا، جب پوری پارلیمنٹ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے مشترکہ حملے کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

پارٹی کے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کے باوجود لگتا نہیں ہے کہ طاقت کے منظرنامے میں کوئی تبدیل واقع ہوئی ہے۔ صرف ایک چیز جو تبدیل ہوئی ہے، وہ یہ کہ پارٹی نے اپنے واحد اتحادی ڈاکٹر طاہر القادری کو کھو دیا ہے، جنہوں نے انقلابی جدوجہد سے 'بریک' لے لیا ہے۔ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا اس وقت میدان چھوڑ گئے، جب انہیں یہ لگا کہ ان کے مقصد کی حمایت میں کوئی فوجی مداخلت نہیں ہورہی۔ اب کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی مدد کے بغیر پی ٹی آئی 'حتمی جنگ' لڑنے کے لیے تنہا رہ گئی ہے۔

یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی شورش پر مبنی اپنی سیاست سے آخر حاصل کیا کرنا چاہتی ہے۔ 30 نومبر کو 'حتمی جنگ' قرار دے کر عمران خان نے خود کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرلی ہیں۔ کیا ہوگا اگر یہ داؤ بھی کامیاب نہیں ہوا؟ کیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بڑا مجمع اکٹھا کر کے وہ پورا سسٹم گرا سکتے ہیں؟ اور اس کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا؟

بھلے ہی انتخابی اصلاحات کے لیے پی ٹی آئی کے زیادہ تر مطالبات درست ہوسکتے ہیں، جن کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے حمایت بھی کی ہے، لیکن پارلیمنٹ سے باہر رہنے کے پی ٹی آئی کے فیصلے نے اس کے مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔ شورش کی سیاست پر جمے رہنے کی پالیسی کی وجہ سے اس نے گذشتہ سال کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات اور انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا ایک اچھا موقع گنوا دیا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ حکومت کی ہٹ دھرمی بھی ڈیڈلاک کا سبب ہو، لیکن وزیراعظم کے استعفے پر پی ٹی آئی کے اصرار نے بھی مسئلے کو حل نہیں کیا ہے۔ اب عمران خان خود بھی قبول کرتے ہیں کہ چھ میں سے پانچ نکات پر اتفاق ہونے والا تھا۔ وہ وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

لیکن ان کو یہ احساس کافی دیر سے ہوا ہے۔ سخت گیر پوزیشن اپنا کر پی ٹی آئی نے حکومت کو وعدہ خلافی کا موقع دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اگر یہ سوچتے ہیں کہ کنٹینر کے اوپر چڑھ کر بیان بازی کرنے سے تبدیلی آسکتی ہے، تو وہ کسی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں۔

اس دوران اس بات پر مکمل کفیوژن ہے، کہ پارٹی کا مقصد کیا ہے۔ قانون کی حکمرانی، کرپشن کے خاتمے، اور الزامات سے پاک جمہوریت کی باتیں اچھی ہیں۔ یہ بھی یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے ملک کی نوجوان اور شہری مڈل کلاس میں ہلچل پیدا کی ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت بھی ملکی سیاست میں ایک حوصلہ افزا بات ہے۔

لیکن پارٹی اس بات پر کلیئر نہیں ہے کہ وہ اعلان کردہ تبدیلی کس طرح لائے گی۔ شورش، اور مخالفین کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرنا برداشت اور صحتمند سیاسی بحثوں کے جمہوری کلچر کو پروان نہیں چڑھا سکتا۔ ڈی چوک میں رکھے کنٹینر پر سیاسی موقع پرستوں کی بڑھتی تعداد کوئی امید افزا شگون نہیں ہے۔

شیخ رشید تو پارٹی کے اسٹیج پر ایک مستقل شخصیت ہیں، اور ہر کسی کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں، لیکن عمران خان کے ساتھ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو پارٹی کے رنگوں میں ملبوس دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ 2002 کے انتخابات پر اثرانداز ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے تحقیقی رپورٹ کی تھی کہ کس طرح یہ الیکشن فکس کیے گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو لیڈرشپ میں رکھنے کی توقع ایسی پارٹی سے نہیں تھی جو سیاسی کلچر تبدیل کرنے کی جنگ لڑ رہی ہے۔

ایجیٹیشن کی سیاست پر قائم رہنے نے پارٹی کی توجہ خیبر پختونخواہ میں کارکردگی بہتر بنانے سے ہٹا دی ہے، جہاں اس کی حکومت ہے۔ پارٹی صوبے کے معاملات پر توجہ دے کر گڈ گورننس کی مثال قائم کرسکتی تھی، بجائے اسکے کہ چیف منسٹر اسلام آباد میں کنٹینر پر اپنا وقت گزارتے۔

اب جبکہ انتظامیہ 30 نومبر کے مارچ سے نمٹنے کی تیاری میں ہے، تو اسلام آباد کو دوبارہ کنٹینر لگا کر سیل کردیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی حمایت کے باعث عوام کی بڑی تعداد میں شرکت متوقع ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹکراؤ کی سیاست ہمیں کہاں پہنچائے گی۔ طاقت کا کوئی بھی استعمال صرف خون خرابے کی طرف لے کر جائے گا۔ یہی وہ معاملہ ہے، جس پر پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کو سوچنا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


زاہد حسین ایک لکھاری اور جرنلسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر hidhussain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں