اردو ہے جس کا نام

اپ ڈیٹ 06 فروری 2015
قومی تشخص کی علامت اردو زبان پر دوسری زبانوں کو فوقیت دینا ترقی نہیں بلکہ اپنی شناخت مٹانے کے برابر ہے۔
قومی تشخص کی علامت اردو زبان پر دوسری زبانوں کو فوقیت دینا ترقی نہیں بلکہ اپنی شناخت مٹانے کے برابر ہے۔

زبانِ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ باقی دنیا کے برعکس ہماری اپنی ہی قوم اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستان کی تخلیق سے لے کر آج تک اردو زبان ترقی پانے کے بجائے رو بہ زوال ہے۔ ہماری اپنی ہی قوم اردو کو وہ عزت اور وقار دینے کو تیار نہیں جس کی بحیثیت قومی زبان یہ حقدار ہے۔

پاکستان نامی جس ملک کی یہ قومی زبان ہے، وہاں حالات یہ ہیں کہ وہ انسان زیادہ قابل اور پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جسے فر فر انگریزی بولنے اور لکھنے پر عبور حاصل ہے، لیکن ایک اچھی اردو لکھنے اور بولنے والے کو قابل نہیں سمجھا جاتا۔ کسی بھی جگہ آپ کی کامیابی کی ضمانت یہ ہے کہ آپ انگریزی زبان پر کتنا عبور رکھتے ہیں۔

سرکاری ہو یا نجی، ہر شعبے کی ہر سطح پر انگریزی کے بغیر کام نہیں چلتا۔ تعلیمی اداروں میں بھی انگریزی میڈیم کا تڑکا کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ مانا کہ انگریزی زبان کی اہمیت بین الاقوامی ہے، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی قومی زبان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جائے؟ جب کوئی قوم خود ہی اپنی زبان کو وقعت نہیں دے گی تو اقوامِ عالم میں اس کی عزت و تکریم کیونکر ہو گی؟

پڑھیے: اردو زبان کے ایک گمنام سپاہی

میرا سوال صرف اتنا ہے کہ ایک ایسی چیز جس کو آپ نے اپنی قومی شناخت کا درجہ دے رکھا ہے، کہ جناب اردو ہماری قومی زبان ہے، تو پھر کیوں اس کو اپنانے میں اس قدر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں؟ دنیا کی ہر قوم اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ہزار جتن کرتی ہے۔ اپنی زبان کے فروغ اور ترویج کے لیے کام کرتی ہے۔ اپنی منفرد پہچان پر فخر کرتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم ہر اس چیز کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے جس کے ساتھ ”قومی“ کا سابقہ لگ جائے۔ ہمارا تو وہ حال ہے کہ ”کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔“

قومی زبان کسی بھی قوم اور ملک کے تشخص کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ اور یہاں اس بنیاد کی مضبوطی کی طرف دھیان دینے کے بجائے یہ قوم خود ہی اس بنیاد کو کھوکھلا کرنے پر تلی ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کی نقالی میں ہماری اپنی پہچان اور تشخص کس حد تک مسخ ہو رہا ہے اس بات کا احساس سوائے چند ایک کے شاید ہی کسی کو ہو۔

دنیا میں اگر اردو زبان کا کوئی مقام باقی رہ گیا ہے تو وہ میر تقی میر، مرزا غالب، داغ دہلوی، شاعرِ مشرق علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز، اور ایسے ہی لاتعداد شعراء کی کوششوں کا ثمر ہے، جن کے کلام نے ایک عالم کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں کلامِ غالب باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اقبال کے کلام پر پی ایچ ڈیز کی جاتی ہیں، فیض کے کلام کا روس کی تمام زبانوں میں ترجمہ کر دیا جاتا ہے، لیکن وہ قوم جس کی اپنی زبان ہی اردو ہے، اس کے بچے ان شعراء کے ایک شعر کو بھی خود سے سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

مزید پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

رہی سہی کسر بین الاقوامی ثقافتی یلغار نے پوری کر دی ہے۔ اب ایسے میں کوئی زبان اپنے تشخص اور انفرادیت کو کیسے برقرار رکھ سکتی ہے جب اس کی اپنی ہی قوم کے لوگ اسے رد کرنے کو تیار بیٹھے ہوں۔ ہمارا یہ رویہ اس بات کا واضح عکاس ہے کہ ہم احساسِ کمتری کا شکار ہیں اور شکست خوردہ قوم بننے کی طرف مائل ہیں۔

میڈیا جو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے وہ اس اہم معاشرتی مسئلے کی طرف دھیان ہی نہیں دیتا، کیونکہ اسے سیاسی مسائل سے ہی فرصت نہیں ہے۔

ایک وقت تھا کہ جب پاکستانی ڈرامے دیکھ کر اور خبریں سن کر لوگ اپنا اردو زبان کا تلفظ درست کیا کرتے تھے، لیکن اب حال یہ ہے کہ یہی ذریعہ ابلاغ بڑے پیمانے پر ہماری قومی زبان کے بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ ماضی میں کسی بھی ریڈیو یا ٹی وی چینل میں خاص طور پر ماہرِ لسانیات کا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا جو پروگرامز کے اسکرپٹ میں زبان کے صحیح استعمال کو یقینی بنا سکے، لیکن اب حالات کیا ہیں، سب اس سے بخوبی واقف ہیں، اور اس لاپرواہی کا اثر لامحالہ ہماری روزمرہ بول چال میں نظر آتا ہے۔

میری استدعا صرف اتنی ہے کہ اردو زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے کام کیا جائے یا نہیں، لیکن کم از کم اسے اس کی اصل حالت میں برقرار تو رہنے دیا جائے۔ انگریزی اور ہندی کے پیوند لگا لگا کر اس کی انفرادیت کو خراب نہ کیا جائے۔ آج حال یہ ہے کہ اکثریت اردو کا ایک جملہ بھی انگریزی کا پیوند لگائے بغیر ادا نہیں کر سکتی، جس کی وجہ سے کئی الفاظ و محاورے جو اردو میں موجود ہیں، وہ کم استعمال کی وجہ سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

جانیے: پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں

آخر اس سب کا انجام کیا ہوگا؟ ایسی بے وقعتی کب تک اور کہاں تک قابلِ برداشت ہے؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اپنے قومی تشخص کی علامت ایک زبان کو رد کر کے کوئی قوم کب تک بین الاقوامی طور پر اپنا وقار قائم رکھ سکتی ہے؟

یہ میری کہنے کی نہیں بلکہ سب کے سوچنے کی بات ہے۔

تبصرے (15) بند ہیں

فراز Feb 06, 2015 06:03pm
پاڪستان کي قومي زبان اردو نهين هوني چاهئي ، اردو نام ڪي ڪوئي قوم ڪو وجود نهين پاڪستان 4 قومون کا ملڪ هي ، هر قوم کي اپني قومي زبان هي ، اور انگلش کي ساتهه ان قومي زبانون کي اهميت دي جاءَ . باقي اردو جو پڙهنا چاهتين بهلي ان کو اردو پڙهائي جائي
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی Feb 06, 2015 09:48pm
@فراز میں پاکستان میں اردو کو فروغ نہ ملنے اور عدم پذیرائی پر پچھلے 18 سال سے کام کر رہا ہوں۔ قابل احترام مصنفہ نے معاملے کی بنیاد کو سمجھے بغیر اور وجوہات کو جانے بغیر صرف سطحی باتوں کو سامنے رکھ کر یہ تحریر قلم بند کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اردو کو فروغ نہ ملنے اور اس کو ہر خاص و عام میں پذیرائی نہ ملنے کا صرف ایک سبب ہے اور وہ ہے پاکستان میں اردو کا عدم نفاذ۔ پاکستان میں آج اردو کا ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر نفاذ ہو جائے، کل ہی سے ہر ایک اردو لکھنا اور پڑھنا شروع کر دے گا۔ اس وقت کوئی اردو کو پڑھنے یا اردو میں پڑھنے کے لئے اس لئے تیار نہیں کیونکہ اس کے عدم نفاذ کی وجہ سے اسے وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہئیے۔ میں اپنی بات کی کچھ وضاحت کروں گا۔ اعلیٰ تعلیم اردو میں نہیں دی جا رہی۔ مقابلے کے امتحانات اردو میں نہیں ہو رہے۔ دفتروں، عدالتوں اور کاروبار مملکت میں اردو استعمال نہیں ہو رہی۔ اب ان سب باتوں کی وجہ سے وہ زبان آگے آ رہی ہے جس زبان میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔ کل سے مقابلے کے امتحانات اردو میں لئے جائیں۔ اعلیٰ تعلیم اردو میں دی جائے، دفتروں، عدالتوں اور کاروبار مملکت کی زبان اردو کو قرار دیا جائے، کل سے ہی اس ملک میں ہر طرف اردو کا چلن ہو جائے گا۔ اب ان لوگوں کی بات جن کو پاکستان میں 4 یا اس سے زیادہ قومیں نظر آتی ہیں اور اس بنا پر وہ اردو کو برداشت کرنے کے لئے تو تیار نہیں مگر انگریزی کو مسلط رکھنے کے حق میں ہیں۔ ان سے بس یہ پوچھنا ہے کہ انگریزی کس/کتنے فی صد پاکستانیوں کی مادری یا پدری زبان ہے جو آپ اسے برداشت کئے بیٹھے ہیں۔ پھر یہ کہ روس اور چین میں کیا ایک ای
نجیب احمد سنگھیڑا Feb 06, 2015 10:11pm
جب تک اس سوال کہ ‘اردو زبان کو کیونکر قومی زبان کا درجہ دیا گیا، کیا یہ قومی زبان بننے کے قابل تھی کہ یہ ملک کے چار صوبوں میں بولی ہی نہیں جاتی تھی؟ قومی زبان تو قوم کی زبان سے منتخب کی جاتی ہے اور جبکہ اردو تو ملک کے کسی صوبے میں بھی نہیں بولی جاتی تھی، پھر اسے کیونکر قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا؟ کہا جاتا ہے کہ اردو زبان ایسی ہے کہ اس کے الفاظ ملک کی حقیقی اور خالص زبانوں سے میچ کر جاتے ہیں، اس لیے یہ پلے پڑ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اردو زبان ملک بننے کے بعد کتنے سالوں بعد پاکستان کی عوام کے پلے پڑنی شروع ہوئی تھی؟ یہ اسی اور نوے کی دہائی کے درمیان پلے پڑنی شروع ہوئی، گویا ملک بننے کے چالیس سال بعد اردو زبان چاروں صوبوں کے لوگ سمجھنے کے قابل ہوئے اوکھے سوکھے ہو کر۔ اس حقیقت سے واضح ہو جاتا ہے کہ اردو زبان کو رابطہ کی زبان بنوانا بھی غیرعقلی تھا وگرنہ یہ زبان عوامی سطح پر چالیس سال بعد پلے پڑنا شروع نہ ہوتی بلکہ دو چار سال بعد ہی ہو جاتی۔ لہذا اردو زبان کو قومی زبان سمجھنے یا بولنے کی ہچکچاہٹ کی بنیادی اور حقیقت پسند وجہ صرف یہ ہے کہ اسے ٹھونسا گیا تھا بذریعہ خودساختہ بہانوں کے۔ ملک کے باشعور عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کون سی زبان باہرلی ہے اور کون سی زبان خطہ پاکستان کے خمیر سے نکلی ہے۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ
Asgher mangi Feb 06, 2015 11:14pm
اردو ڪوئي الگ زبان نهين بلڪ هندي زبان هي. هندي ڪي الفابيٽ ڪو فارسي اور عربي ۾ تبديل ڪرڪي اس ڪو اردو زبان ڪا نام ديا گيا هي. اردو پاڪستانيون ڪي زبان نهين، بلڪ ڀارتيون ڪي زبان هي. پاڪستان ڪي زبانين فقط سنڌي، پنجابي، پشتو اور بلوچي هين. ان مين سي ڪسي بهي زبان يا نا سب زبانون ڪو قومي زبان ڪا درجا ديا جائي
بہجت مقبول Feb 07, 2015 02:52am
اردو جیسی مٹھاس کسی اور زبان میں نہیں اور یہ اب ہم سب کی مجبوری بن گٗی ہے اس سے نکلا نہیں جا سکتا، بہتر ہے اسے نظر انداز کرنے کے بجاے دل سے اور فخر سے اپنانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کے اس کے فروغ کے لیے سنجیدگی سے کام کرے، دنیا میں جس طرح نئی چیزیں متعارف ہو رہی ہیں اور ان سے ہمارا تعلق اب ایک تسلسل اختیار کر چکا ہے ان کا نام اردو میں ضرور ہونا چاہیے ایک دفعہ ایک عرب باشندے نے مجھ سے پوچھا کہ Software کو تمہاری زبان میں کیا کہتے ہیں میں نے مجبوراً کہا Software ہی کہتے ہیں۔
کبیرخان Feb 07, 2015 06:00am
دنیا میں صرف برصغیر ہی ایسا قطعہ ہے کہ جہاں مادری زبان، قومی زبان، تعلیمی زبان، سرکاری زبان، مذہبی زبان ایک نہیں۔ جسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملکی قانون ایک ایسی زبان میں لکھے جاتے ہیں جسے 8 فیصد لوگ سمجھتے ہیں، مذہبی امرونہی ایسی زبان میں ہیں جسے ہم سمجھے بغیر پڑھتے ہیں، اس لئے نہ ہم ملکی قانون پر عمل کرتے ہیں نہ مذہب کی ہمیں سمجھ ہے۔ تعلیم ہم ایک غیر ملکی زبان میں رٹا لگا کر حاصل کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پروان نہیں چڑھا پاتے۔ دنیا بھر کے ملکوں کے لیڈر جب غیرملکی دورے پر جاتے ہیں تو اپنی مادری زبان میں تقریر کرتے ہیں چاہے انکی زبان کو صرف دس یا بیس لاکھ افراد ہی بولتے ہوں۔ اور اس میں انکو کوئی شرم نہیں آتی۔ مگر ہمارے ہندوستانی اور پاکستانی لیڈر اگر غلطی سے اپنی زبان میں تقریر کر بیٹھے تو اسکا مذاق بنایا جاتا ہے اور اسکو ان پڑھ ہونے کا تمغہ لگا دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں اپنی اپنی زبان میں ڈاکٹریٹ تک کی تعلیم دیتی ہیں، مگر ہمارے ہاں اسکی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ اپنی زبان کا استعمال ہر سطح پر کرنے کی سہولت ہر انسان کا بنیادی حق مانا جاتا ہے مگر ہمارے ملکوں میں دوسرے حقوق کی طرح یہ حق بھی ہماری قوموں کو حاصل نہیں۔ کیا کسی کے علم میں ہے کہ دنیا کی وہ کون سی قوم ہے جس نے اپنی قوم پر غیر زبان کو مسلط کرکے ترقی کی ہو؟
علی صدیقی Feb 07, 2015 08:52am
بھائی نجیب، میری علمی فورموں پر کسی کی ذات کو ہدف تنقید نہیں بناتا لیکن آپ کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ آپ اپنی علمی و فکری استعداد میں اضافہ کے لیے کوشش کریں۔ خیر، اردو زبان قیام پاکستان سے پہلے ھی وجود میں آچکی تھی اور اس کی پیدائش ھی مختلف زبان بولنے والوں کے درمیان رابطہ کے نتیجہ میں ھوئی تھی۔ لہذا اس میں عربی، فارسی، ترکی اور ھندی زبان کے الفاظ شامل تھے۔ لہذا اسے انگریزوں کےدور میں بھی برصغیر کی ایک بڑی زبان کے طور پر اھمیت حاصل رھی۔ یہی وجہ ھے کہ قائد اعظم نے خود اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود بد قسمتی سے ایک طقبہ اردو زبان کے نفاذ کو پاکستان میں مہاجروں کے تسلط کی علامت سمجھتا ھے اور اس کے نفاذ میں رکاوٹ ھے۔ اگر آپ کے سوال کی روشنی میں کسی ایسی زبان کو قومی زبان یا رابطہ کی زبان کے طور نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی تو نتائج کیا ھوتے؟ یہ غالب کی اردو شاعری تھی جس نے نے برصغیر اور اسے باھر عالمی شہرت بخشی ورنہ ناقدین غالب کی فارسی شاعری کو اردو شاعری سے بہتر قرار دیتے ھیں۔ یہ علامہ اقبال کی اردو شاعری تھی جس نے ان کو بھی عالمی شہرت بخشی۔ قائد اعظم بھی عوام سے رابطہ کے لیے اردو زبان استعمال کیا کرتے تھے خواہ ان کا لب و لہجہ اور گرامر کیسی ھی ھو۔ کہ اردو زبان ھی ھے جس نے فیض احمد فیض کو فیض بخشا، فراز کو سرفراز کیا، اور لاتعداد ادباء و شعراء جنھیں پاکستان بننے کے بعد بھی اردو زبان نے لافانی مقام عطا کیا۔ شیخ ایاز سندھی اور شاہ لطیف سندھی ادب کے بہت بڑے نام ہے۔ رحمن بابا پشتو شاعری کا بہت بڑا نام ھے۔ اسی طرح پنجابی اور بلوچی زبان میں بہتے بڑے بڑے نام ھیں ل
Ashiq Feb 07, 2015 02:10pm
Urdu is not the only national language of Pakistan. However, it is one of the national languages of Pakistan, others being Sindhi, Pashto, Punjabi, and Balochi. It must not be implemented at the cost of other languages which have been the languages of the land since centuries. We have to learn some lesson from Urdu-Bengali conflict. We imposed Urdu on Bengalis, and the result is obvious. "International Mother Languages Day" is celebrated every year to remind us of this unsuccessful experiment. Please, learn to respect others communities of Pakistan. Their cultures, their languages, their land. Don't punish these communities for their elders' supporting Pakistan. Question: If the Sindhis would know before 1947 that their language will be wiped out of their own land and they would become second class citizens in the new Muslim state; had they supported Pakistan???
Fozia Feb 08, 2015 05:27pm
یہ تو حال ہے سب کا۔ہر کوئی یہاں یہ کہ رہا اس کی زبان کو قومی بنا دیا جائے LOL ان کے لئے یہ کہنا چاہیے ؛ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ
Bashir Ahmed Bhutto Feb 08, 2015 06:59pm
@Fozia It is historical fact that When Muhammad Ali Jinnah announced in Dacca that Urdu will be our national language ,his own party men were very much annoyed and Bengalis did not accept Urdu as their language. From that day seeds of hatred were sown and Bengalis started thinking about imposition of Urdu on them, and ultimately East Pakistan separated and become "Bangladesh". In the same way when Sindhi language bill was being discussed in Sindh assembly in 1973 the Jang (Urdu) newspaper printed on its borders that "Urdu ka janaza hae zara dhoom se nikle" . So Urdu is the source of disintegration not integration as it is being imposed on native Sindhi, Bauchi, Punjabi and Pushto people. Sindhi had been introduced in Schools since 1856 but now it is conspiracy that it is being replaced by Urdu. When any body is coming to some other land he/she is supposed to learn the language of land and not to impose their language on natives...
Muhammad Salman Jafry Feb 10, 2015 02:15am
Meri tamam hukumati aur niji edaroon /soft wear developer se guzarish hai Urdu typing ka asan sa soft wear bana dain aur usko munasib rate par market main dal dain phir dekhian Urdu zaban kitni tarqi karti hai , aj kal sab se bara masla text msg main aur computer per typing karna hai Urdu main jo ke aam admi ke lia buhat mushkil ha.
یمین الاسلام زبیری Feb 10, 2015 05:18am
زبان ایک تمدنی شے ہے۔ اور تمدن کا معملہ یہ ہے کہ عوام حکمرانوں کی پیروی کرتی ہے اور زبان اور لباس انہیں کا جیسا اپناتی ہے۔ جب تک انگریز تھے ہم ان کے پیچھے چلتے رہے؛ ان کے جانے کے بعد اشرافیہ نے غریب عوام کو اعلیٰ نوکریوں سے دور رکھنے کے لیے اردو کا نفاذ نہ ہونے دیا۔ اپنی اولادوں کو اچھے انگریزی اسکولوں میں بھیجا۔ جہاں تک بنگالیوں کا اردو کی وجہ سے ناراض ہونے کا ہے تو یہ غلط ہے، ۱۹۶۵ کے انتخابات میں بنگالیوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھرپور طریقے سے ووٹ دیے تھے۔ جب فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا تو ان بنگالیوں کی آس ٹوٹ گئی اور ایوب کے دور کے اختتام کے فوراً بعد ہی پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ انگریز کے دور مٰیں فارسی کے بعد اردو ہندوستان کی قومی زبان تھی، اور مسلمانوں کی مذہبی زبان بھی تھی۔ ہندوئوں کو کھٹکتی تھی اس لیے انہوں نے ہندی ایجاد کی۔ پاکستان کی زبانیں اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائکی، ہندکوہ اور براہوی ہیں، ان کے علاوہ اور بہت سی چھوٹی زبانیں بھی موجود ہیں۔ بنگلادیش کے بننے سے پہلے بنگالی بھی پاکستان کی زبان تھی۔ ان سب زبانوں میں، بنگالی کو ملا کر، اگر کوئی زبان سب س زیادہ ترقی یافتہ ہے تو وہ اردو ہی ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے اردو میں بہت کام کیا ہے اور اب اس میں سائینس کی اعلی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔ دفتروں میں اسے رائج کیا جاسکتا ہے۔ مٰیں ذاتی طور پر اردو میں لکھتا ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ میں پاکستان کی دوسری زبانوٓں کے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کروں؛ اگر ہمیں ادھار لینا ہی ہے تو ہم اپنی زبانوں سے کیوں نہ لیں۔ میں یہاں آواز اٹھاتا ہوں کہ پاکستان کی تمام ز
حسین عبداللہ Feb 10, 2015 09:03pm
اگر ہم سرکاری زبان اردو نہ بنائیں تو ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ ہم اپنی شناخت مکمل کھو جاینگے اردو میں جو چاشنی ہے وہ انگلش میں نہیں اردو دل اور روح کے قریب ہے
یمین الاسلام زبیری Feb 12, 2015 11:26pm
@Bashir Ahmed Bhutto یہ بات بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جناح صاحب نے اردو کا نفاظ کر کر بنگالیوں کو ناراض کر دیا تھا، یہ بات ذرا منطق سے ہٹ کر ہے۔ کیا سندھی لوگ بنگالی یا انگریزی کو قبول کرلیتے۔ جناح نے یہ بات صرف وفاق کے لیے کہی تھی۔ اس بات کی تردید اس وقت بھی ہوگئی جب ۱۹۶۵ میں بنگالیوں نے فاطمہ جناح کو بھر پور طریقے سے ووٹ دیے۔ انہوں نے فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرائے جانے کا بہت برا مانا اور ایوب کے جاتے ہی پاکستان دولخت ہوگیا۔
یمین الاسلام زبیری Feb 12, 2015 11:40pm
@فراز جناب ایک تو اردو میں پاکستان کی چاروں صوبوں زبانوں کے الفاظ شامل کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے، دوسرے اس کا اور چاروں کا صرف و نحو ایک ہی ہے۔ جہاں تک قوم کے نہ ہونے کی بات ہے تو ایسا تو بہت جگہوں پر ہے، مثلاً: ملک افغانیستان زبان دری، پشتو؛ بھارت ہندی؛ عراق عربی؛ ایران فارسی؛ اور تو اور امریکہ انگریزی۔ یہ فہرست لمبی بھی ہوسکتی ہے۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اردو کا نہ صرف مزاج ملک کی دیگر چاروں زبانوں سے ملتا ہے بلکہ یہ پانچوں زبانوں میں سب س زیادہ ترقی یافتہ بھی ہے۔ میں یہاں آواز اٹھاتا ہوں کہ پاکستان کے ہر صوبے میں بولی جانے والی زبان کو اس صوبے میں رائج کیا جائے اور اس میں تعلیم کا انتظام بھی کیا جائے۔ پاکستان کی تمام زبانوں کی ترقی پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔