• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

خیبرپختونخوا میں گورنر راج: ’یہ اقدام ملک کو سنگین بحران میں دھکیل دے گا‘

شائع December 4, 2025

خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے امکان پر کئی ماہ سے بحث ہوتی رہی ہے لیکن اب یہ معاملہ ناگزیر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ بعض سرکاری وزرا کے حالیہ بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس آپشن پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

ایسا کوئی بھی اقدام ملک کو مزید سنگین بحران میں دھکیل دے گا جس کے دور رس سیاسی اور سیکیورٹی اثرات مرتب ہوں گے۔ ملک میں تنگ ہوتی جمہوری فضا پہلے ہی ایک غیر مستحکم صورتِ حال پیدا کر چکی ہے اور محاذ آرائی کی سیاست پورے نظام کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے۔ کیا ملک جو پہلے ہی متعدد داخلی اور خارجی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، ایسی غیر ذمہ دارانہ کارروائی کا متحمل ہو سکتا ہے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے اس ممکنہ اقدام کے لیے جو وجوہات بیان کی گئی ہیں، اُن میں خیبرپختونخوا میں سلامتی اور گورننس کے مسائل شامل ہیں۔ یہ درست ہو سکتا ہے کہ اسٹریٹجک اہمیت کے حامل صوبے کو ایک دہائی میں اپنی بدترین سیکیورٹی صورتِ حال کا سامنا ہے اور دہشت گردی سیکڑوں جانیں لے چکی ہے لیکن ان بگڑتے حالات کی اصل ذمہ داری وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ بدانتظامی کا بہانہ بھی کمزور ہے کیونکہ دیگر صوبوں میں حالات قابلِ تعریف نہیں۔

پورا معاملہ طاقت کی سیاست اور خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو دیوار سے لگانے کا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کیے جانے کے باوجود، پی ٹی آئی اب بھی کے پی اسمبلی میں غالب حیثیت رکھتی ہے۔

ایک نئے اور سخت گیر وزیرِاعلیٰ کے منصب سنبھالنے کے بعد سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان محاذ آرائی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ صوبے میں گورنر راج کے ممکنہ نفاذ سے اس ہائبرڈ نظام کی مایوسی جھلکتی ہے جو صوبائی حکومت کو زیرِ دام کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ایسی کسی بھی سخت کارروائی کے نتیجے میں صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے، بالخصوص اُس خطے میں کہ جہاں عسکریت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے اور مغربی سرحد پر جنگ جیسے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

سب سے زیادہ تشویشناک پہلو مقامی آبادی کی ریاست سے بڑھتی ہوئی بیگانگی کا احساس ہے، بالخصوص وہ اضلاع جو عسکریت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ صوبائی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی کے باعث ان علاقوں میں انتظامی کنٹرول تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

ایسی صورتِ حال دہشت گرد گروہوں کو مزید کھلی آزادی فراہم کرتی ہے جو اب بلاخوف و خطر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پشاور میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حالیہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ گروہ اب اعلیٰ سیکیورٹی زون میں بھی اس نوعیت کے بے باک حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لیکن سیکیورٹی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً کم وسائل رکھنے والے اور مایوسی کا شکار شہری قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں۔ ریاست اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا اعتماد کا خلا صوبے میں سیکیورٹی کے عملی طور پر انہدام کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔

اس کے علاوہ، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ کے ‘سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ’ کے حوالے سے دیے گئے بیانات کو وسیع پیمانے پر اس طور پر لیا گیا ہے کہ صوبائی سیاسی قیادت کو عسکریت پسند اور جرائم پیشہ گروہوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس تاثر نے اسلام آباد اور پشاور کے مابین جاری تناؤ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی بحث کو مزید تقویت دی ہے۔

نتیجتاً، یہ صورتِ حال عوام کو وجودی خطرے کے خلاف متحد کرنے کے بجائے ان میں اعتماد کے بحران کو مزید بڑھا سکتی ہے اور یوں ریاست کو اپنے ہی لوگوں سے دور کر سکتی ہے۔

افغانستان کے ساتھ جاری کشیدگی اور وہاں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں نے براہِ راست خیبرپختونخوا کو متاثر کیا ہے۔ صوبے کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے اور نسلی بنیادوں پر روابط بھی موجود ہیں۔ لہٰذا پاک-افغان تناؤ میں اضافہ خیبرپختونخوا کی سیاست اور معاشرے پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔

سرحدوں کی بندش نے صوبے میں کاروبار اور تجارت کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ لیکن کیا ریاستی اداروں اور وفاقی حکومت نے مقامی آبادی کے ان خدشات کو تسلیم کیا ہے؟

اگرچہ افغانستان کی کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کی حمایت کرنے کے معاملے پر پی ٹی آئی کے مؤقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن صوبائی حکومت کا اُن افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری کے خلاف مؤقف جو اس ملک میں پیدا ہوئے یا تقریباً تین نسلوں تک یہاں رہے، اتنا غیر معقول نہیں جتنا وفاقی حکومت اسے بنا کر پیش کر رہی ہے۔

درحقیقت حکومت کے من مانے فیصلے یعنی ان مہاجرین کو واپس بھیجنے اور تجارت بند کرنے سے افغان عوام کے جذبات اس ملک کے خلاف ہو گئے ہیں جسے افغان طالبان کی انتظامیہ نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے لیے اپنی افغان پالیسی پر نظرِ ثانی کرنا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔ وزیرِ دفاع اور کچھ دیگر پاکستانی حکام کی جانب سے افغانوں کے بارے میں سخت زبان میں دیے گئے عوامی بیانات نے نہ صرف سرحد کے اُس پار لوگوں کو مشتعل کیا ہے بلکہ اندرونِ ملک بہت سے پشتون بھی اس سے دل برداشتہ ہوئے ہیں۔

لیکن ملکی جمہوری فضا کے سکڑنے اور بڑھتی ہوئی آمریت میں موجودہ محاذ آرائی کی جڑ ہے۔ عدلیہ کی خود مختاری کو آئینی ترامیم کے ذریعے محدود کرکے حکومت نے ہائبرڈ نظام کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان کو اُن کے آئینی حق یعنی منصفانہ ٹرائل سے محروم رکھنا اور عدالتی احکامات کے باوجود اُنہیں اپنے اہلِ خانہ اور وکلا سے ملاقات کرنے نہ دینا، وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان جاری محاذ آرائی کو مزید بھڑکانے کا سبب بن رہے ہیں۔

صوبے میں پارٹی اب نوجوان نسل اور زیادہ پُراعتماد عناصر کے ہاتھ میں ہے جو حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

ایک علیحدہ اور بظاہر فرمانبردار آئینی عدالت کے قیام کے بعد، وفاقی حکومت کو اب اس بات کا زیادہ یقین ہوچکا ہے کہ اس کے ماورائے آئین اور غیر جمہوری اقدامات کالعدم قرار نہیں دیے جائیں گے جس سے خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنا مزید آسان ہو جائے گا۔ بااثر حلقوں میں شاید اس بات کا شعور نہیں کہ اس اقدام سے صوبے میں عوامی ردِعمل کس قدر شدید ہو سکتا ہے۔

وفاقی وزیرِ قانون نے گورنر راج کا دفاع کرتے ہوئے اسے مارشل لا کے بجائے ایک آئینی راستہ قرار دیا ہے۔ مگر جمہوری حقوق کی نفی اور بعض طاقتور حلقوں کا سخت طرزِ عمل عوام کی نظر میں مارشل لا سے کم نہیں سمجھا جا رہا۔ صوبائی حکومت کو معطل کرنا عوامی بے چینی میں مزید اضافہ کرے گا اور ملک کو مزید عدم استحکام کی جانب دھکیل دے گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025