پنجاب اسمبلی نے کردی ایک نئی تاریخ رقم

28 فروری 2015
پنجاب اسمبلی کی عمارت — فائل فوٹو
پنجاب اسمبلی کی عمارت — فائل فوٹو

لاہور : پنجاب اسمبلی نے جمعے کو اس وقت تاریخ رقم کردی جب سیشن تین گھنٹے اور 35 منٹ تاخیر کا شکار ہوگیا اور یہ وقت لگ بھگ اتنا ہی تھا جتنا عام طور پر پورے سیشن کے لیے ہوتا ہے اور زیادہ بدترین امر یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی شرمندگی یہاں تک کہ تاخیر پر اسپیکر کی جانب سے کوئی وضاحت تک سامنے نہیں آئی۔

سہ پہر دو بجے کی بجائے شام پانچ بج کر 35 منٹ پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے پر اپوزیشن رکن وسیم اختر نے اٹھ کر اسپیکر کو تاخیر یاد دلائی " میں حیران ہوں کہ کیا طالبان نے پورے ایوان کو اسپیکر سمیت اغوا کرلیا تھا"۔

تاہم اسپیکر نے مکمل طور پر ان طنزیہ ریمارکس کو نظرانداز کرتے ہوئے وقفہ سوالات شروع کرنے کا اعلان کیا۔

اس تاخیر کی اصل وجہ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی اراکین کا 90 شاہراہ قائداعظم یعنی اسمبلی کے سامنے والی سڑک پر ایک اجلاس تھا جہاں سینیٹ انتخابات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسپیکر بذات خود شام پانچ بج کر 15 منٹ کو ایوان میں پہنچے اور جب میڈیا نے تاخیر کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کی تو وہ وہاں یہ کہتے ہوئے چلے گئے " کچھ اہم معاملات تھے جنھیں توجہ کی ضرورت تھی"۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جب پارٹی اور قائم مقام اسپیکر اجلاس سے آگاہ تھے تو انہوں نے پورے ایوان کی کارروائی کو روک کیوں دیا جس پر رانا اقبال کی عدم حاضری (قائم مقام گورنر کے طور پر کام کے باعث) پر اسپیکر کے فرائض سنبھالنے والے شیر علی خان گورچانی وہاں سے چلے گئے۔

ایوان کی کارروائی کا آغاز 28 اراکین سے ہوا اور یہ تعداد مطلوبہ کورم کی ایک تہائی بھی نہیں تھی اور مغرب کے وقت جب ایوان کی کارروائی میں بیس منٹ کا وقفہ ہوا تو یہ تعداد صرف پچاس تک پہنچی تھی اور گنے کے کاشتکاروں کے درپیش مسائل پر بحث کے لیے دوبارہ اکھٹا ہونے پر یہ کم ہوکر صرف 25 رہ گئی۔

اتنی کم تعداد پر چونکہ اس موضوع پر بحث نہیں ہوسکتی تھی اس لیے حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اسے اگلے روز تک ملتوی کرنے پر اتفاق کرلیا۔

احسن ریاض فتیانہ نے اس موقع پر کھڑے ہوکر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخر کیوں ایوان کی کارروائی کو کسی آفیشل کارروائی کے بغیر ملتوی کیا جارہا ہے مگر اسپیکر نے فوری طور پر اجلاس پیر کی دوپہر تک ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے احسن فتیانہ کی جانب سے کورم کی نشاندہی اور حکومتی بینچوں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا۔

اس سے قبل مختصر وقفہ سوالات کے دوران سوالات کی مکمل فہرست کہیں غائب نظر آئی جبکہ وزیر زکوة و عشر ملک ندیم کامران نے ایوان کو بتایا کہ اب مستحق افراد کو اب بنیادی الاﺅنس الیکٹرونک ٹرانسفر کے ذریعے ملے گا اور اس کے لیے بینک کی بجائے ٹیلی کام کمپنی کا استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا " پہلے پائلٹ پراجیکٹ کو تین اضلاع میں شروع کیا گیا اور پھر اٹھارہ تک پھیلا دیا گیا اور آج اسے پورے صوبے تک توسیع دے دی گئی ہے، محکمہ امیر افراد کو بھی اس عمل میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے جو کہ فلاحی کاموں میں حصہ لینا چاہتے ہیں تاکہ پیسوں کی تقسیم کے لیے ان کا اعتماد جیتا جاسکے۔اس حوالے سے متعدد سطحوں پر لوگوں سے ملاقاتیں اور منصوبے تیار کیے جارہے ہیں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ محکمہ کس حد تک شفاف انداز سے کام کررہا ہے اور ان کی دولت کس طرح محفوظ طریقے سے مستحق افراد تک پہنچ رہی ہے"۔

تبصرے (0) بند ہیں