ووٹ برائے فروخت

03 مارچ 2015
اسلام آباد کے ایل پولنگ اسٹیشن میں ورکر بیلٹ باکس سیل کر رہا ہے — اے پی/فائل
اسلام آباد کے ایل پولنگ اسٹیشن میں ورکر بیلٹ باکس سیل کر رہا ہے — اے پی/فائل

ابھی 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا نہیں کہ سینیٹ کے 5 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں متوقع ہارس ٹریڈنگ تمام اسٹیک ہولڈرز کی تشویش میں اضافہ کر رہی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات آئین پاکستان کے مطابق ہر تین سال بعد منعقد ہوتے ہیں جس میں خود پانچ سال کی مدّت کے لیے منتخب ہونے والے چھ سالوں کے لیے سینیٹرز منتخب کرتے ہیں۔

حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہونے والے اپنے ووٹوں سے ان افراد کو منتخب کرتے ہیں جن کی مدّتِ چھ سال یعنی اسمبلیوں کی مدّت سے بھی ایک سال زیادہ ہوتی ہے۔

ہر تین سال کے بعد سینیٹ انتخابات کی وجہ سے پانچ سال بعد آنے والی حکومت کو اگلے آنے والے سینیٹ انتخابات تک تو پچھلی حکومت کی سینیٹ میں اکثریت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے نئی منتخب ہونے والی عوامی حکومت اپنی من مانی سے قانون سازی کر نہیں سکتی اور اس کی خاطر سینیٹ انتخابات کا انتظار کیا جاتا ہے۔

بہرحال بات تو سینیٹ کے ہونے والے انتخابات کی ہو رہی تھی جن کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے ایک ایک سیٹ کروڑوں میں بکتی ہے۔

پڑھیے: ہارس ٹریڈنگ میں کون ملوث ہے؟

خان صاحب کے اس بیان کے بعد پاکستانی مادر پدر آزاد میڈیا نے خان صاحب کے بیان کو لے کر خوب منجن بیچا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے برقی رہنماؤں نے سینیٹ کی سیٹس کے لیے پیسوں کے استعمال پر گرج چمک کر تنقید کی اور اس بات پر زور دیا کے اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جانے چاہیے۔

مزے کی بات یہ کہ مباحثوں میں شریک ہونے والے تمام شرکا میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ان کی جماعت پیسوں کے عوض سینیٹ کی نشستیں فروخت نہیں کرتی، بلکہ سب نے زور اس غیر جمہوری عمل کو روکنے پر دیا۔ حالانکہ اگر سیاسی جماعتیں ہی پارٹی ٹکٹس نہ بیچیں تو کیسے کوئی پیسے خرچ کر کے چھ سال کے لیے سینیٹر بن سکتا ہے؟

دوسری طرف کچھ سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے ہاتھ دکھا کر ووٹ دینے کا شوشہ چھوڑ دیا ہے جس کی حمایت تحریک انصاف اور ایم کیو ایم جیسی بڑی جماعتوں نے بھی کر دی ہے، مگر جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی ہاتھ دکھا کر ووٹ ڈالنے کے لیے آئینی ترمیم کے لیے رضامند نہیں۔

ایم کیو ایم اور تحریک انصاف شاید ہاتھ دکھا کر ووٹ اس لیے ڈالنا چاہتے ہیں کہ کہیں ان کے اراکین اسمبلی سینیٹ امیدواروں سے پیسے لے کر انہیں ہاتھ ہی نہ دکھا جائیں اور دونوں جماعتوں کے امیدوار بھرے مجمعے میں منہ دیکھتے رہ جائیں۔

سب سے دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ اس عمل کو ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے یعنی گھوڑوں کی خریدو فروخت، جس کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے ایک مکروہ عمل قرار دیا ہے۔

پڑھیے: سینیٹ انتخابات کے لیے حکومت کا اہم ترین فیصلہ

جمہوری روایات اور جمہوری اقدار کا پرچار کرنے والے یہ سیاستدان اپنے ہی ہم پیالہ اور ہم نوالہ اراکینِ اسمبلیوں پر بالکل بھی اعتماد نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے بائیسویں آئینی ترمیم کے مسودے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ جو کوئی رکن اسمبلی کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے گا، اس کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔

خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہ بائیسویں آئینی ترمیم پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کی مخالفت کی وجہ سے پیش ہی نہیں کی گئی، جس کے بعد سینیٹ انتخابات کے لیے ووٹنگ خفیہ طریقے سے ہی ہو گی اور گھوڑوں کی خرید و فروخت کا عمل خفیہ ہی رہ جائے گا۔

کیسے اچنبھے کی بات ہے کہ سیاستدان عوام سے زیادہ اپنی اپنی جماعت کے اراکین اسمبلیوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں اور جن پر بد اعتمادی کا حال یہ ہے کہ اپنے امیدواروں کے ووٹوں کے لیے سیاستدان آئینی ترمیم لانے کے لیے بھی تیار ہو گئے تھے۔

اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اٹھارہویں آئینی ترمیم میں یہ بھی طے پایا جا چکا ہے کہ جو کوئی بھی وزیراعظم کی کرسی کے لیے اپنا ووٹ کسی اور پارٹی کے امیدوار کو دے گا، اس کی رکنیت بھی ختم کردی جائے گی۔

اس کے علاوہ اگر کوئی شخص رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد جماعت تبدیل کرتا ہے تو اس کو بھی اپنی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی رکن اسمبلی اپنی جماعت تبدیل کرتا ہے تو وہ پہلے اسمبلی سے مستعفی ہوتا ہے، جیسے کہ نبیل گبول، جنہوں نے ایم کیو ایم چھوڑتے ہی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اس کے علاوہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تو تیسری بار وزیر اعظم بننے کی پابندی کو بھی ختم کر دیا گیا تھا اور اس کی وجہ شاید یہ کہ پاکستان میں خوش قسمتی سے جو لوگ وزیر اعظم بننے کے اہل ہیں، وہ دو دو بار وزیر اعظم بن چکے تھے (جن میں سے ایک محترمہ بینظیر بھٹو تھیں)۔

جانیے: سینیٹ انتخابات ن لیگ کے گلے کا پھندہ؟

پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ ہی اٹھارہویں ترمیم کو اپنا عظیم ترین کارنامہ گردانتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ اس ترمیم میں ہی کچھ ایسے اقدامات بھی کیے گئے جن کا فائدہ صرف اور صرف چند سیاسی گھروں کو ہی پہنچا۔ جمہوری روایات کا پرچار کرنے والی جماعت بائیسیوں آئینی ترمیم کے لیے تو راضی نہیں، اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس سینیٹ میں 40 سیٹیں موجود ہیں۔ جن میں سے 20 سینیٹرز چھ سالہ دورِ اقتدار ختم کر کے گھر چلے جائیں گے۔

ایسے میں اگر پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلیوں نے اپنے ووٹ بیچ دیے تو اگلے تین سالوں تک سینیٹ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت نہیں مل سکے گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اگلے سینیٹ انتخابات بھی نواز دور میں ہی ہوں۔

ایم کیو ایم اور تحریک انصاف اس لیے ہاتھ دکھا کر ووٹ ڈلوانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے اراکین اسمبلیوں کے دھوکا دینے کا اندیشہ ہے۔ موجودہ سینیٹ میں ایم کیو ایم کے سینیٹرز کی تعداد 7 ہے جن میں سے 3 اپنی مقررہ مدت پوری کرلیں گے۔

تحریک انصاف نے چونکہ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا، اس وجہ سے موجودہ سینیٹ میں تحریک انصاف کا کوئی بھی سینیٹر نہیں۔ مگر کے پی میں اکثریت ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدوار بھی چھ سالوں کے لیے سینیٹر منتخب ہوسکتے ہیں۔

اصولی طور پر تو سینیٹ انتخابات کے لیے مختلف فیلڈز میں ماہر حضرات کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ دیے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے آئندہ ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے کچھ ایسے امیدواروں کو بھی ٹکٹ دیے گئے ہیں جو کہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ان کے لیے اسمبلی کا الیکشن لڑنا ممکن نہیں اور اب وہ اپنا سارا تجربہ چھ سال تک سینیٹ میں بیٹھ کر بروئے کار لائیں گے۔

مزید پڑھیے: سینیٹ انتخابات: سیاسی جماعتوں میں رابطے تیز

بہر حال سینیٹ انتخابات کے بارے میں کچھ بھی کہیں، جتنا بھی کہہ لیں، چاہے تو کچھ نہ بھی کہیں، اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عام آدمی کا ووٹ ہی ہوتا ہے جو پہلے کسی بھی سیاستدان کو اسمبلیوں تک پہنچاتا ہے اور پھر وہی منتخب شدہ رکن اسمبلی اپنے ووٹ سے سینیٹر چنتا ہے۔

اس طرح جمہوری سلسلہ چلتا جاتا ہے جس میں ووٹ دینے والے کو پہلے پانچ سال تک اپنے ہی ہاتھوں منتخب شدہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور پھر اس منتخب شدہ رکن اسمبلی کے ہاتھوں منتخب شدہ سینیٹر کو بھی چھ سال بھگتنا پڑتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں