سینیٹ انتخابات ن لیگ کے گلے کا پھندہ؟

26 فروری 2015
وزیراعظم نواز شریف — اے ایف پی فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف — اے ایف پی فائل فوٹو

اسلام آباد : سینیٹ انتخابات مسلم لیگ نواز کے لیے گلے کا پھندہ بنتے نظر آنے لگے ہیں کیونکہ حکمران جماعت کے اندر مایوسی اور بدحواسی بڑھتی جا رہی ہے۔

بدھ کو وفاقی دارالحکومت میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والا ہر فرد دیوانہ وار کوشش کرتا نظر آیا تاکہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے انتخابات کو " ہارس ٹریڈنگ" سے پاک بنانے کے لیے وسیع سیاسی اتفاق رائے کو یقینی بنایا جاسکے۔

وزیراعظم کے دفتر اور مختلف مقامات پر دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے ساتھ ہنگامی اجلاس ہوئے جن کا ایجنڈا مسلم لیگ ن کا " سینیٹ انتخابات میں کھلی رائے شماری" کا مطالبہ تھا، جس کے حکومت کو ایک آئینی ترمیم متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

حکمران جماعت کو ڈر ہے کہ منحرف اراکین اپنے امیدواروں کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں اور ان کو پابند رکھنے کا ایک اور طریقہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔

اگر اس پر اتفاق رائے ہوگیا تو تمام جماعتوں کے امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی ووٹنگ طاقت کے مطابق بلامقابلہ منتخب ہوجائیں گے ۔

ن لیگ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق حکومت ان دونوں آپشنز پر کام کررہی ہے۔

تاہم کچھ آئینی ماہرین کے مطابق پانچ مارچ کو شیڈول سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ناممکن مشن خفیہ رائے شماری کے ووٹنگ سسٹم کو کھلی ووٹنگ سے تبدیل کرنا ہے جس کے لیے وزیراعظم نے دو کمیٹیوں کو بھی تشکیل دیا۔

ایوان کے اندر تبدیلی کے لیے وزیراعظم کی ٹیم کو مختلف اہداف دیئے گئے جن میں شہر میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرنا شامل تھا۔ اسحاق ڈار نے حکومت ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے سینیٹ انتخابات کے لیے کھلے پن کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

اجلاس کے بعد پی پی پی رہنماءاور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کی جماعت ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی حامی ہے۔

تاہم انہوں نے ایک آئینی ترمیم کی ضرورت پر مزید سوچ بچار کا مطالبہ کیا " پی پی پی سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کے اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے مگر مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو لازمی ملنا ہوگا"۔

اس کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت آئینی ترمیم یا کسی اور طریقے سے ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

یہ اجلاس پی پی پی کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ کی منسٹر انکلیو میں واقع رہائش گاہ پر ہوئی۔

پی پی پی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا خیال بھی اجلاس کے دوران زیربحث آیا۔

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی سربراہی میں دوسری حکومتی ٹیم کو مولانا فضل الرحمان کو آن بورڈ لانے کا چیلنجنگ ٹاسک دیا گیا۔

فوجی عدالتوں کے قیام پر حکومت سے ناراض مولانا فضل الرحمان نے کہا " ہم ابھی تک 21 ویں ترمیم کے اثرات کو ہضم نہیں کرپائے ہیں اور اب حکومت 22 ویں ترمیم کی بات کررہی ہے جس کے بارے میں مجھے نہیں لگتا کہ میری پارٹی اس کی حمایت کرے گی"۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر شواہد کے پارٹی کے اراکین اسمبلی کی وفاداریوں پر شبہات کا اظہار غلط ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے اس موقع پر کھلی ووٹنگ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا " میں جے یو آئی ف کے خدشات کو وزیراعظم تک پہنچاﺅں گا اور توقع ہے کہ مولانا ان اقدامات پر اپنی سوچ میں نظرثانی کریں گے جن حکومت کرنا چاہتی ہے"۔

دوسری جانب اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے ووٹنگ طریقہ میں مجوزہ تبدیلی پر تبادلہ خیال کیا۔

ان دونوں رہنماﺅں کی ملاقات آج متوقع ہے کیونکہ گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنماءاسلام آباد سے باہر تھے۔

اپنے ایک علیحدہ بیان میں پی ٹی آئی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہماری پارٹی ہاتھوں کو اٹھا کر ووٹنگ کی حمایت کرتی ہے مگر ہم عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل تک پارلیمنٹ میں واپس نہیں جائیں گے۔

سعد رفیق نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سے رابطہ کرکے ان کی جماعت کے لیے آئینی اقدامات کی حمایت کی خواہش کا اظہار کیا جس پر حکومتی قانونی ماہرین کام کررہے ہیں۔

ان دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں کی ملاقات بھی جمعرات کو متوقع ہے۔

پولنگ کے دن سے قبل مطلوبہ ترمیم کے اثرات پر بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری قانون اور وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ ایسا بالکل ممکن ہے اگر سیاسی جماعتیں رضامند ہوجائیں، اس وقت پی پی پی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے اور ایوان بالا میں دوتہائی اکثریت کے لیے اس کی حمایت لازمی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

خان Feb 26, 2015 10:09am
اس مضمون کا عنوان بہت نامناسب ہے۔ ایسا لگتا ہے لکھنے والے نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ڈان جیسے بڑے اخبار میں ایسی غیر معیاری سرخیاں نہیں ہونی چاہیۓ۔