سینیٹ انتخابات کے لیے حکومت کا اہم ترین فیصلہ

24 فروری 2015
وزیراعظم نواز شریف — اے ایف پی فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف — اے ایف پی فائل فوٹو

اسلام آباد : لوگوں کو آخری لمحات میں حیران کردینے والے اقدامات کی بناءپر معروف حکمران جماعت مسلم لیگ نواز نے پیر کو ایک اہم آئینی ترمیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری کی صورت میں آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے ہاتھوں کو اٹھانے کی بنیاد پر ہوں گے۔

کچھ قانونی اور آئینی ماہرین کی رائے میں آئین میں تبدیلی کی اس خواہش میں بہت تاخیر ہوچکی ہے کیونکہ سینیٹ انتخابات پانچ مارچ کو ہورہے ہیں۔

کاغذات نامزدگی موصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن اس وقت امیدواروں کی اسکروٹنی کے عمل میں مصروف ہے۔

ایک حکومتی ناقد کے مطابق " یہ بالکل ایسا ہی ہے آپ ایک میچ کھیلنا شروع کردیں اور درمیان میں فیصلہ کریں کہ اب کھیل کے اصولوں کو بدل دینا چاہئے"۔

مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق ووٹنگ کے انداز میں تبدیلی کا فیصلہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ممکنہ شرمندگی سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے جہاں کچھ اراکین اسمبلی نے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی کے موقف پر چلنے سے انکار کردیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتہ کوئٹہ میں اپنے دو روزہ دورے کے دوران صوبائی اسمبلی میں پارٹی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی مگر انہیں ناکام واپس آنا پڑا۔

رپورٹس کے مطابق پانچ اراکین اسمبلی نے وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے پارٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا کیونکہ وہ بلوچستان میں نشستوں کی تقسیم کے عمل سے خوش نہیں۔

حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کی صدارت کے دوران وزیراعظم نے سیاسی جماعتوں سے ایک آئینی ترمیم کے لیے رابطہ کرنے کے لیے دو کمیٹیوں کو تشکیل دیا تاکہ اگلے ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی بجائے ہاتھوں کو اٹھا کر رائے شماری کرائی جاسکے۔

پہلی کمیٹی وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشے رحمان پر مشتمل ہے جبکہ دوسری کمیٹی میں وفاقی وزیر احسن اقبال، کے پی گورنر مہتاب احمد خان اور وزیراعظم کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ شامل ہیں۔

حکومتی بیان میں بتایا گیا ہے " یہ کمیٹیاں مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطہ کریں گی تاکہ ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کرکے شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے"۔

قانونی ماہرین پر مشتمل ایک تیسری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو کہ ' چوبیس گھنٹوں کے اندر' وزیراعظم کے سامنے قانونی پوزیشن کی رپورٹ جمع کرائے گی۔

پیپلزپارٹی کا ردعمل : اپوزیشن جماعت پی پی پی کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت نہ صرف سینیٹ الیکشن بلکہ تمام انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ہے اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

پیپلزپارٹی کے بقول " تاہم حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے آئین میں ترمیم کرکے ہاتھوں کی رائے شماری کا طریقہ کار اپنانا جلدی میں کیا گیا اور بے سوچا سمجھا فیصلہ ہے اور اس سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا اظہار ہوتا ہے"۔

پیپلزپارٹی کا رسمی ردعمل اس جماعت کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ انتخابات متعدد فنی باریکیوں پر مشتمل ہے جیسے پہلی، دوسری اور تیسری ترجیحات اور ایک کامیاب امیدوار کو ملنے والے اضافی ووٹ دوسرے کو منتقل ہوجاتے ہیں۔

ردعمل میں کہا گیا ہے " ہاتھوں کو اٹھانے کے طریقہ کار سے تیکنیکی مسائل پر کیسے قابو پایا جائے گا یہ واضح نہیں، حکومت کو وضاحت کرنا چاہئے کہ آخر اس پر عملدرآمد کیسے ہوگا جبکہ انتخابات صرف دس روز بعد ہونے والے ہیں ، یا تو وہ سادہ لوح ہے یا سیاسی داﺅ کھیل رہی ہے یا پھر دونوں"۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن کے لیے یہ حکومت کا ایک غیرمتوقع ہے اقدام ہے جو اس وقت ہورہا ہے جب ای سی پی پہلے ہی الیکشن شیڈول کا اعلان کرچکا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پولنگ کے دن سے قبل مطلوبہ ترمیم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو انتخابات ہاتھوں کو اٹھانے کی بنیاد پر بھی منتعقد ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا " فضاءمیں پھیلتی ہارس ٹریڈنگ کی کہانیوں کے پیش نظر مجوزہ ترمیم کے اپنے فوائد و نقصانات ہیں۔ حکومت کو ہمارے پاس آنے دیں اور اس کے ذہن میں موجود باتوں کو شیئر کرنے دیں اس کے بعد ہی ہم اس حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے"۔

خیال رہے کہ پی پی پی کے بغیر حکومت کے سینیٹ میں آئینی ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنماءنے نام چھپانے کی شرط پر کہا کہ 1973 کے آئین کو بنانے والوں نے سینیٹ انتخابات کے لیے سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ متعارف کرایا تھا جو چھوٹی جماعتوں کو بھی ایوان بالا میں اپنے نمائندگان بھیجنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

رہنماءنے کہا " میں حیران ہوں کہ آخر حکومت اس طرح موجودہ نظام کو ہاتھوں کو اٹھانے کے طریقہ کار میں تبدیل کرسکتی ہے، یہ اتنا بھی سادہ نہیں جتنا کسی کے ذہن میں ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ غوروخوض کے بعد کوئی طریقہ کار سامنے آجائے"۔

اس وقت ایک ووٹر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست میں سے اپنی ترجیحات کا تعین کرتا ہے اور حتمی حساب کتاب ای سی پی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

پی پی پی کے رہنماءنے کہا کہ باغی اراکین اسمبلیوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کا ایک ممکنہ آپشن آئین کی شق 63 اے میں ایک چوتھی کلاز کا اضافہ ہوسکتا ہے جس کے تحت پارٹی سربراہ اپنی پارٹی موقف سے ہٹ کر ووٹنگ کرنے والے اراکین کو اسمبلی کی رکنیت سے ہٹا سکے گا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر دولت کی پیشکش کو دیکھتے ہوئے یہ بظاہر ایک معقول اقدام لگتا ہے، تاہم اس پر کیسے عملدرآمد ہوتا ہے یہ اب پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے قانونی ماہرین فیصلہ کریں گے۔

اتوار کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران سینیٹ انتخابات کے لیے خفیہ رائے شماری کی بجائے ہاتھوں کو اٹھا کر ووٹ دینے کے طریقہ کار کا مطالبہ کیا۔

عمران خان نے بھی وزیراعظم جیسے ہی خدشات کا اظہار کیا۔

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے کچھ اراکین اسمبلی کو ان کے ووٹوں کے بدلے میں دولت کا لالچ دیا جارہا ہے۔

ایک حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اگر سیاسی جماعتیں تیار ہوگئیں تو آئین کی شق 226 میں تبدیلی کی جائے گی۔ اس وقت اس شق کے تحت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخاب سے ہٹ کر تماما انتخابات خفیہ رائے شماری سے کرائے جاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں