عدالت کا محاصرہ: آئی جی سندھ کا معافی نامہ مسترد

اپ ڈیٹ 26 مئ 2015
سندھ ہائی کورٹ کا ایک منظر—فائل فوٹو/ پی پی آئی
سندھ ہائی کورٹ کا ایک منظر—فائل فوٹو/ پی پی آئی

کراچی: عدالت کے محاصرے کے معاملے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) آف پولیس سندھ غلام حیدر جمالی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے معافی نامے کو عدالت نے مسترد کر دیا۔

23 مئی کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے باغی رہنما اور سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی سندھ ہائی کورٹ میں حاضری کے موقع پر پولیس اہلکاروں نے عدالت کا محاصرہ کر لیا تھا اور سادہ کپڑوں میں ماسک لگائے اہلکاروں نے ذوالفقار مرزا کے محافظوں سمیت صحافیوں پر بھی تشدد کیا۔

اس حوالے سے عام خیال یہی پایا جاتا ہے کہ عدالت کو محاصرے میں لیے جانے کی ساری کارروائی پولیس سربراہوں کے احکامات کے تحت کی گئی۔

منگل کو سندھ ہائی کورٹ میں سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے انسپکٹر جنرل سندھ غلام حیدر جمالی، ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو، ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ اور ایس ایس پی ساؤتھ طارق دھاریجو کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی بھی آج عدالت میں پیش ہوئے اور معافی نامہ جمع کروایا۔ تاہم عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کے معافی نامے کو مسترد کردیا۔

جسٹس سجاد شاہ کا کہنا تھا کہ محاصرے کے دوران جب پولیس افسران نے فون کا جواب نہیں دیا تو عدالت کو رینجرز طلب کرنا پڑی۔

صحافیوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں اے ڈی آئی جی ، ڈی آئی جی ویسٹ، ایس ایس پی ساؤتھ اور دیگر افسران نظر آرہے ہیں۔

مزید پڑھیں:'ایسا آئی جی نہیں چاہیے، جو عدالت کا تحفظ نہ کرسکے'

آئی جی سندھ کے اس موقف پر کہ محاصرے کے دوران تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے، جسٹس سجاد شاہ نے ریمارکس دیے کہ 'پہلے تو ہم آپ کے خلاف ایکشن لیں گے، ہم کسی کو بھی عہدے سے برطرف کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے، تب آپ سپریم کورٹ جاکر اپنے آپ کو بحال کروایے گا'۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کردی۔

سندھ ہوم سیکریٹری، چیف سیکریٹری کا واقعے سے لاتعلقی کا اظہار

سندھ کے ہوم سیکریٹری مختارحسین سومرو اور چیف سیکریٹری صدیق میمن نے بھی آج سندھ ہائی کورٹ میں علیحدہ علیحدہ جواب جمع کرادیئے، جس میں عدالت کے محاصرے، صحافیوں پر تشدد اور نقاب پوش اہلکاروں کی تعیناتی کے احکامات سے لاعلمی ظاہر کردی گئی۔

ہوم سیکریٹری مختار حسین کا کہنا تھا کہ فوٹیج دیکھنے کے بعد اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) میجر سلیم، اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) پریڈی اور 15 اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔

جبکہ چیف سیکریٹری صدیق میمن کا کہنا تھا کہ ایس ایس یو کے ایس ایس پی میجر ریٹائرڈ سلیم نے اپنے اختیارات استعمال کرکے کارروائی کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

humair May 26, 2015 02:12pm
Really Appreciate the Decision. آئی جی سندھ کے اس موقف پر کہ محاصرے کے دوران تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے، جسٹس سجاد شاہ نے ریمارکس دیے کہ 'پہلے تو ہم آپ کے خلاف ایکشن لیں گے، ہم کسی کو بھی عہدے سے برطرف کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے، ..تب آپ سپریم کورٹ جاکر اپنے آپ کو بحال کروایے گا
Syed Majid Ali May 26, 2015 03:24pm
سوال یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو نقاب پہنے کیا ضرورت تھی؟ پولیس کا تو معمولی سپاہی کسی بھی شہری سے گالی سے بات نہ کرے تو اس بیچارے کو کیسے پتا چلا کہ یہ پولیس ہے۔ یہ سب لگتا ہے مصنوبہ بنا کر کیا گیا جس میں حکومت اور زرداری صاحب دونوں ملوث ہیں اور پولیس ان کے ماتحت ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ظالم اور سندھ کی تاریخ کی انتہائی بدعنوان پولیس سے سندھ کے عوام کو نجات دلائے۔آمین