انتخابات سے قبل 'بے اختیار' وزیراعلیٰ بن گیا تھا، نجم سیٹھی

اپ ڈیٹ 02 جون 2015
نجم سیٹھی — اے ایف پی/ فائل فوٹو
نجم سیٹھی — اے ایف پی/ فائل فوٹو

اسلام آباد : عام انتخابات 2013 کے دوران پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ رہنے والے نجم سیٹھی نے پیر کو جوڈیشل کمیشن کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ گیارہ مئی کے الیکشن سے چند روز قبل ہی بطور صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے ان کے اختیارات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ انہوں نے یہ بات ایک نجی چینیل پر پانچ جولائی 2013 کو اپنے ٹاک شو " آپس کی بات" میں بھی کہی تھی۔

ان کے بقول چھ جون کو بطور نگران وزیراعلیٰ ان کی مدت کے اختتام سے پندرہ روز قبل ہی بیوروکریسی نے ماڈل ٹاﺅن میں رپورٹنگ دینا شروع کردی تھی، جو کہ نجم سیٹھی کا شہباز شریف کی جانب اشارہ تھا جنھوں نے بعد میں وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔

انتخابی دھاندلی کے لیے قائم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں کام کرنے والے عدالتی کمیشن میں پیشی کے موقع پر نجم سیٹھی سے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ، مسلم لیگ نے کے شاہد حامد اور الیکشن کمیشن کے اکرم راجا نے جرح کی۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ انہوں نے آخری کابینہ اجلاس کی صدارت انتخابات سے پندرہ روز قبل پچیس اپریل 2013 کو کی تھی۔

حیرت انگیز طور پر کسی بھی وکیل نے نجم سیٹھی سے خودساختہ " 35 پنکچرز" کے حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا، جو کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماﺅں نے ان پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کم از کم 35 حلقوں کے انتخابی نتائج میں ردوبدل کیا ہے۔

بعد ازاں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں نجم سیٹھی نے کہا " پی ٹی آئی کے عبدالحفیظ پیرزادہ نے آج جوڈیشل کمیشن میں آج مجھ سے ' 35 پنکچرز' کے حوالے سے ایک سوال تک نہیں کیا، کیوں ؟ کیونکہ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے"۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی نے کمیشن کو اس وقت حیران کردیا جب اس کے وکیل نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ پارٹی کے سربراہ سے جرح کریں۔

عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا " میں ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تمام دستاویزات جاری کیے جانے کے بعد عمران خان سے جرح کروں"۔

یہ بات نجم سیٹھی اور اینکر پرسن حامد میر کی گواہیوں کے بعد سامنے آئی جو کہ پی ٹی آئی کے گواہوں کی فہرست کے آخری دو گواہ تھے، تاہم کمیشن نے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ عمران خان سے جرح کے حوالے سے ایک درخواست جمع کرائیں اور کہا کہ اس معاملے پر فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین (پی پی پی پی) کی جانب سے اپنی اہلیکشن میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابی نتائج میں مبینہ ردوبدل کے حوالے سے عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ پی ٹی آئی سربراہ کو کے پی کے تمام پولنگ بیگز کھلوانے پر کوئی اعتراض نہیں۔

خیال رہے کہ 29 مئی کو کمیشن نے پی ٹی آئی وکیل کو ہدایت کی تھی کہ وہ پی پی پی پی کی درخواست پر عمران خان سے ہدایات حاصل کریں۔

نجم سیٹھی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں اکیس جون 2013 کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا چیئرمین ادارے کے سرپرست وزیراعظم نے تعینات کیا، انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی ایک بھانجی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر ایم این اے منتخب ہوئی۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ بطور وزیراعلیٰ انہوں نے چار سیکرٹریوں کے سوا پورے پنجاب کی بیوروکریسی کو بدل دیا تھا تاکہ منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ جاوید اقبال چیف سیکرٹری کے لیے ان کا پہلا انتخاب تھے اور اب وہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف میں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں مگر نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ جب ای سی پی نے قمر زمان چوہدری (موجودہ چیئرمین نیب) کو تعینات کیا تو عمران خان نے اعتراض کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر پر قمر زمان چوہدری کے نام کو واپس لینے کے لیے آمادہ کرنے اور جاوید اقبال کی تعیناتی کے لیے عمران خان کی اجازت لینے کی کوشش کی جس پر وہ آسانی سے رضا مند ہوگئے۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے چوہدری شجاعت حسین، پرویز الہیٰ، نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان اور پی پی پی کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کیں، جبکہ انہیں پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے انتخابی مہم میں درپیش مشکلات کے حوالے سے ایک یا دو بار فون بھی موصول ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ نواز شریف سے رابطے میں نہیں تھے تاہم ان کی انتخابی مہم کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات کو ان تک پہنچا دیا گیا تھا تاہم ن لیگ کے قائد اپنے جلسوں کو منسوخ کرنے کے لیے تیار نہیں، اسی طرح کے خدشات عمران خان تک بھی پہنچائے گئے مگر انہوں نے بھی جلسوں میں شرکت نہ کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ انہیں 1999 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے گرفتار کیا تھا مگر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کے بعد وہ رہا ہوگئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مشکل دور میں عبدالحفیظ پیرزادہ نے ان کے ساتھ بہت تعاون کیا تھا۔

ٹی وی اینکر حامد میر نے جوڈیشل کمیشن میں سندھ کے علاقے ٹنڈوالہ یار کے حلقہ این اے 223 سے متعلق اصل بیلٹ بک نمبر 1285 پیش کی جو کہ ای سی پی کی پراپرٹی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کتاب انہوں نے اپنے ایک ٹاک شو میں بھی دکھائی تھی مگر کوئی بھی اسے لینے کے لیے ان کے پاس نہیں آیا۔

خیال رہے کہ اس حلقے سے عبدالستار بچانی نے مسلم لیگ نواز کی ڈاکٹر راحیلہ مگسی کو شکست دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں جبکہ کمیشن میں ان کے ٹاک شوز کے تین ویڈیو کلپس بھی دکھائے گئے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ کے پی کے ایک حلقے سے شکست کھانے والے امیدوار شاہ عبدالعزیز ان کے پروگرام میں بیلٹ پیپرز کی بوری لائے تھے وہ بیلٹ پیپرز ان کے پاس نہیں پہنچنے چاہئے تھے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے ٹاک شوز میں ایسا کہتے رہے ہیں کہ قبائلی علاقوں سمیت چاروں صوبوں میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور انہوں نے ان حلقوں کا بھی ذکر کیا جہاں دھاندلی ہوئی۔

حامد میر نے کہا کہ انہوں نے اپنے ایک پروگرام میں فافین کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جس میں کچھ پولنگ اسٹیشن پر سو سے تین سو فیصد اضافی ووٹ ڈالنے کی بات کی گئی تھی تاہم بعد میں ای سی پی اور فافین نے اس پر وضاحت پیش کردی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Fida Hussain Jun 02, 2015 12:42pm
یہ تو ٹھیک ہے کہ نجم سٹھی صاحب سے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے 35پنکچر سے بارئے کوئی سوال نہیں کیا جس پر وہ فخر کے ساتھ اپنے سچا ہونے دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں کیونکہ بقول ان کے سارئے الزمات جھوٹ پر مبنی تھے۔ میری دعا ہے کہ محترم نجھم سٹھی صاحب لگائے گئے تمام الزمات جھوٹے ثابت ہوں ۔ تاہم یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نجم سٹھی پاکستان تحریک انصاف کے رہنماعمران خان کے خلاف کوئی ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے یا خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھیں گے۔