کیا یہ آخری سانحہء حج تھا؟

12 اکتوبر 2015
اب تک 89 پاکستانی حجاج اس سانحے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ — تصویر بشکریہ مصباح قیصر
اب تک 89 پاکستانی حجاج اس سانحے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ — تصویر بشکریہ مصباح قیصر

ایسوسی ایٹڈ پریس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس سال کے حج میں کچلے جانے والے حجاج کی تعداد 1453 ہوگئی ہے۔ اس تعداد کے ساتھ یہ سانحہ اب تک کے تمام حج سانحوں سے زیادہ ہلاکت خیز تھا۔

منیٰ کی اسٹریٹ 204 اور 223 کے سنگم پر ہونے والے اس سانحے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، مگر بھلے ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سانحہ کس طرح رونما ہوا، اس بات کی امید کم ہی ہے کہ معلومات کو عوام تک پہنچایا جائے گا۔

اس سانحے کے بعد طرح طرح کی آراء سر اٹھانے لگیں۔ ترقی پذیر ممالک کے حجاج کے مطابق انتظامات نہ صرف کافی تھے، بلکہ اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک کے لوگ، جنہوں نے مجمع کو منظم کرنے کا عملی مظاہرہ اپنے ممالک میں دیکھ رکھا ہے، ان کے نزدیک انتظامات کافی نہیں تھے۔

کئی آراء تو بہت ہی مضحکہ خیز تھیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اس سانحے کی زیادہ میڈیا کوریج ایک سازش کے تحت تھی تاکہ لوگوں کو حج سے دور رکھا جائے۔ دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سعودی عرب پر ہونے والی ہر تنقید صرف پروپیگنڈا ہے۔

1975 میں سعودی حکومت نے حج ریسرچ سینٹر اس لیے قائم کیا تھا تاکہ حجاج کرام کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بہتر طور پر منظم کرنے کے لیے سفارشات اکٹھی کی جا سکیں۔ بھلے ہی اس ادارے کی فنڈنگ حکومت خود کرتی ہے، مگر اس ادارے کی سفارشات پر زیادہ تر کیسز میں عمل نہیں کیا جاتا۔ اس کے نتیجے میں ہر کچھ سال بعد سانحے پر سانحہ رونما ہوتا ہے جبکہ بہتری کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔

مگر یہ سانحے صرف تب ہی منظرِ عام پر آتے ہیں جب ہلاکتوں کی تعداد تین ہندسوں تک پہنچتی ہے۔ حالیہ ترقیاتی کام، جس کا مقصد مزید حجاج کے لیے جگہ بنانا ہے، میں صحت اور حفاظتی اقدامات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جو ویسے بھی ترجیح نہیں تھے۔

لیکن کچھ معاملات ایسے ضرور ہیں جنہیں سعودی حکومت درست طور پر سنبھالتی ہے، جیسے کہ ہر سال مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی ہدایات از سرِ نو تیار کی جاتی ہیں، جبکہ مقامی اور عارضی عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حجاج کرام کی تعداد کو بھی کم یا زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس سال مسجدِ الحرام میں جاری تعمیراتی کام کے سبب حجاج کی اوسط سے کافی کم تعداد کو آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اسی طرح گذشتہ سال MERS وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے بوڑھے اور کمزور لوگوں کو حج کے لیے ویزے جاری نہیں کیے گئے تھے۔

مگر پھر بھی بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں پر انتظامات کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی حکومت صحت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حاجیوں کی تربیت پر یقین نہیں رکھتی۔ سعودی انتظامیہ کے مطابق چونکہ حجاج کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے، اس لیے انہیں تربیت نہیں دی جا سکتی۔ مگر حج کے انتظامی اسٹاف میں بھی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت کی کمی نظر آتی ہے۔ کیونکہ حاجی بہرحال اس عبادت کے مذہبی پہلوؤں کی تربیت تو حاصل کرتے ہی ہیں۔

مثال کے طور پر ہم ایک سانحے اور اس پر ہونے والے ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں، 1987 میں برطانیہ میں ایک فٹبال میچ کے دوران اسٹیڈیم کا خارجی دروازہ کھولنے کے بعد 96 لوگ کچل کر مارے گئے۔ دروازہ اس لیے کھولا گیا تھا تاکہ اسٹیڈیم کے باہر جمع ہونے والے مجمع کو سنبھالا جا سکے۔ اس سانحے کو اب Hillsborough disaster کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فوراً ہی تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت کے ایک سال کے اندر اندر برطانیہ بھر کے تمام اسٹیڈیمز نے شائقین کے کھڑے ہونے کی کھلی جگہوں کو بیٹھنے کی جگہوں میں بدل دیا۔

اس اقدام کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی کیونکہ لوگوں کو بٹھانے کا نتیجہ شائقین کی کم تعداد کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے آمدنی میں کمی ہوتی ہے، مگر عوام کی صحت اور حفاظت کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس کے بعد ہزاروں فٹبال میچز دوبارہ ہوئے مگر 1987 کا یہ سانحہ پھر کبھی رونما نہیں ہوا۔

کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فٹبال میچ کے مجمعے کا حج کے مجمعے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ایسا ہے، مگر پھر بھی یہ حج کے مجمع کا چھوٹا روپ ضرور کہلا سکتا ہے کیونکہ لوگ اتنے ہی کھچاکھچ بھرے ہوئے اور جذباتی ہوتے ہیں۔

دوسری جانب 1997 کا سانحہء منیٰ ہے جس میں آگ لگنے سے سینکڑوں حاجیوں کی جان گئی تھی، مگر فائرپروف خیمے چھ سال بعد 2003 میں لگائے گئے تھے۔

مجمع کا انتظام اور مجمع کی نفسیات دو مختلف شعبے ہیں۔ ان شعبوں میں تحقیق نے قابلِ قدر معلومات فراہم کی ہیں کہ کس طرح پیدل چلنے والوں کے لیے زیریں گزر گاہیں یا سرنگیں پلوں کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سادہ ہے: لوگوں کو (نفسیاتی طور پر) نیچے جانے میں اوپر کی جانب بڑھنے سے آسانی ہوتی ہے۔

اس طرح کی سینکڑوں تحقیقات موجود ہوں گی، کئی تو صرف اس پر ہوں گی کہ سخت دھوپ و گرمی میں مجمع کو کیسے منظم کیا جائے۔ ان سب تحقیقات سے مستقبل میں حج کے انتظامات مزید بہتر بنانے میں بے پناہ مدد مل سکتی ہے۔

عام طور پر سعودی حکام رضاکاروں، پولیس اور طبی عملے کی بڑی تعداد کو اپنے انتظامات اور کارکردگی کی دلیل بتاتے ہیں۔ مگر اچھے انتظام کے لیے محتاط منصوبہ بندی، تفصیلات پر توجہ اور دور اندیشی درکار ہوتی ہے جو حالیہ انتظامات میں دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ سانحوں کو قسمت میں لکھا یا خدا کی مرضی قرار دے کر بھلا نہ دیا جائے۔ تقدیر پر ایمان ضرور ہمیں سخت حالات میں راحت پہنچاتا ہے، مگر پھر بھی منصوبہ بندی کے ذریعے کئی چیزوں سے بچا جا سکتا ہے۔

امید ہے کہ یہ ہمارے سامنے ہونے والا آخری سانحہء حج ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

riaz ahmad, germany Oct 12, 2015 04:39pm
in my poor opinion, saudi govt should drastically reduce the no of hajis, secondly at MINA hajis should be divided into small groups to enter the ritual place. elderly, disabled on wheel chair persons should not be allowed during Haj
حسن امتیاز Oct 12, 2015 05:03pm
ہارون جنیدی کا مضمون کافی معیاری اور متوازن ہے ۔
Faisal Hussain Oct 12, 2015 06:42pm
We want to see our self first that how batter we perform our projects. Is every thing is perfect in our project(s). Answer is no. So initially we want to improve our self. Hajj and its related matters are solely responsibility of Saudi Govt. Let them resolve and improve.
محمد ارشد قریشی (ارشی) Oct 12, 2015 06:46pm
بہت عمدہ اور معلوماتی تحرہر
Muhammad Ayub KhaN Oct 12, 2015 07:04pm
this happened in the right arm of mina concentration camp that is totally scarce of any health or logistic facility. The left arm of mina has luxurious hotels where vip hajis stay with wide and double roads. Right side of Mina has single roads. No health facility. no movement facility. illiterate and untrained management close doors as and when think fit without notice. People sleep on roads on this side of Mina concentration camp.
Zubair Oct 12, 2015 07:07pm
Haroon Bhai with full respect to your feelings and words, I was performing hajj this year and what I see the facilities were upto the mark its not that I'm from an under develop country that's why I see these good enough, Its because these were really good and its make my Hajj easy. Only 1 point where they need to focus (Saudi Govt.) when people going for Stoning the to the complex their is no Shadow and believe me 40 Deg. will make that place hot like hell because of a too many people on the same place. They can put Fans on the way to stoning Complex + Shadow of any Temporary Roof. Al though about the Hajjis so I find a lot of hajjis are not prepared for Hajj they don't know a lot of things you going to perform the 5th Pillar of Islam and you are not ready? Govt. of each country should come in front to educate their hajjis as much as possible. Beside all the things I appreciate Saudi Govt. for their best facilities for Hajjis
ادریس Oct 12, 2015 08:50pm
حج کے موقع پر موجود رضاکار، نوجوان لڑکے ہوتے ہیں جو ہجوم کی نفسیات سے تو کیا ، ہماری زبان تک سے واقف نہیں ہوتے۔ اُن کے لیے حاجی اور بھیڑ ، بکری میں کوئی فرق نہیں ہوتا، چاہے کوئی مرے یا جیئے۔ مکے کے سعودی صرف پیسا کمانے کے لئے حاجیوں کو بھیڑ، بکریوں کی طرح ٹھونستے ہیں۔ان کا حساب روزِ قیامت ہی ہو گا ، کیونکہ دنیا میں تو یہ ممکن نہیں۔
طاہر رفیق Oct 13, 2015 01:13am
ہتا ہوں۔اول ہمیں انتہائی دکھ سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انتظامات کتنے ہی عمدہ کیوں نہ ہوں مسلمانو ں میں مجموعی طور پر ڈسپلنکا شدید فقدان ہے۔جسطرح قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں اسی طرح حج محض چند مذہبی رسوم ادا کرنے کا نام نہیں۔ دوران حج دھکم پیل،گروپ بنا کر کہنیاں مار کر آگے نکلنے کی کوشش ،ضد،انا ،اہم مقامات پر دوسروں کو جگہ نہ دینا جیسے واقعات عام ہیں۔اگراللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کرآنے والےمحض چند دن بھی ان معمولی نفسانی کمزوریوں پر بھی قابو نہیں پا سکتےتوپھر یہ حادثے ہمارا مقدر بنتے رہیں گے۔ان پر قابوپانا علم ،تربیت اور تحقیق سے ہی ممکن ہے محض قدرت کے ذمہ لگا دینا اپنی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا ہے۔دوم پے درپے دو حادثے (کرین والا) مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں عرب اور انٹی عرب،امریکہ اور انٹی امریکہ جذبات اور سعودی حکومت کی مخالفت کیلئے مسلمان یا دشمن ملک کی طرف سےکسی سازش کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
K M KHAWAR Oct 13, 2015 11:34am
@riaz ahmad, germany ---- your opinion is not sound --- rush hour are those when the hajis return from muzdalfa---------there is no rush at Mina thereafter.