واشنگٹن: ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان نے پاکستان کو 'دہشت گردی کی مدد کرنے والی ریاست' قرار دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے، امریکا نے پاکستان اور ہندوستان پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اختلافات کے خاتمے کے لیے کام کریں۔

منگل 27 ستمبر کی دوپہر تک ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد ہندوستانی امریکیوں نے اُس پٹیشن پر دستخط کردیئے، جس میں وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو 'دہشت گردی کی مدد کرنے والی ریاست' قرار دے۔

واضح رہے کہ 21 ستمبر کو شروع کی گئی اس آن لائن پٹیشن پر ایک لاکھ افراد کے دستخط درکار ہیں، جس کے بعد وائٹ ہاؤس کو 60 دن کے اندر اس پر ردعمل دینا ہوگا۔

مزید پڑھیں:پاکستان کو 'دہشت گردی کی کفیل ریاست' قرار دینے کا بل پیش

دوسری جانب وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ دونوں ہی اس صورتحال سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں انھیں 'یا تو پاکستان یا پھر ہندوستان' کے نقطہ نظر پر غور کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ دونوں ممالک اس کے اہم اتحادی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ دونوں بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات دور کریں۔

وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ نے میڈیا بریفنگ کے دوران اس سوال پر کہ پاکستان اور ہندوستان میں سے امریکا کسے سپورٹ کرتا ہے، جواب دیا، 'ہم دونوں ممالک پر یہ زور دیتے آئے ہیں کہ وہ اپنے اختلافات کو تشدد کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے حل کریں'۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا پاکستان، ہندوستان پر اختلافات ختم کرنے پر زور

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ہمیشہ ہی ایک مقابلے کی صورتحال رہی ہے، تاہم رواں برس جولائی میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے، اس وقت سے لے کر اب تک ہندوستانی فوجیوں کے ہاتھوں 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پیلٹ گن کے استعمال سے سیکڑوں کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

گذشتہ ہفتے پاکستان اور ہندوستان نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس میں اٹھایا، اس حوالے سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے کہا، 'ہم نے بیانات دیکھے اور سنے ہیں'۔

مزید پڑھیں: اُڑی حملے سے اقوام متحدہ میں ’کشمیر مہم‘ متاثر

مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ، 'پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے اور خود ان دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہیں اور امریکا دونوں ممالک میں بہترین سیاسی تعلقات اور دو طرفہ تعاون دیکھنے کا خواہشمند ہے، جس سے کشیدگی کے خاتمے میں مدد ملے'۔

ایک صحافی نے ترجمان کو یاد دلایا کہ امریکا اور ہندوستان اس خطے میں مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ روسی فوج بھی پاکستان کے ساتھ اسی قسم کی مشترکہ مشقیں کر رہی ہے۔

جس پر نائب ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا، 'اگر اس حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ وہاں 'جیسے کو تیسا' یا کوئی بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے، تو ایسا کچھ نہیں ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'ہم پاکستان، ہندوستان اور اس خطے کے حوالے سے طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ یہاں کوئی کھیل نہیں کھیلا جارہا'۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخ میں پہلی بار روسی فوج کی پاکستان آمد

مارک ٹونر کے مطابق، 'امریکا کے ہندوستان کے ساتھ بہت قریبی، گہرے اور دوطرفہ تعلقات ہیں لیکن یہ پاکستان کی قیمت پر استوار نہیں کیے گئے'۔

امریکا-ہندوستان تعقات کی وضاحت کرتے ہوئے مارک ٹونر نے کہا، 'وہ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے اور ہمارے ہندوستان کے ساتھ قریبی تجارتی اور معاشی تعلقات ہیں، جن میں اب سیکیورٹی تعاون بھی شامل ہوگیا ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان بہتر طور پر دہشت گردی کا جواب دینے کے قابل ہوجائے، جس سے پاکستان کو اندرونی طور پر خطرات لاحق ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ دہشت گرد گروپ ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرتے ہیں۔'

پاکستان کے خلاف دستخطی مہم کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کے لیے ایک باقاعدہ قانونی طریقے اور جائزے کی ضرورت ہوگی۔

مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے لڑ رہا ہے اور اس نے اس جنگ میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔

تاہم انھوں نے پاکستان سے پڑوسی ممالک کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان پر ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھاتا رہے گا۔

یہ خبر 28 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں