2018 انتخابات:ریلیوں پر پابندی کی تجویز پر تحفظات

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2016
اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں 16 سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے— فوٹو/ آئی این پی
اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں 16 سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے— فوٹو/ آئی این پی

اسلام آباد: متعدد سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2018 کے انتخابات کے حوالے سے تیار کیے جانے والے ضابطہ اخلاق پر تحفظات ظاہر کیے ہیں جن میں عوامی ریلیوں اور اشتہارات پر پابندی کی بھی تجویز سامنے آئی ہے۔

2018 انتخابات کے حوالے سے تیار کردہ ضابطہ اخلاق پر مشاورت کے لیے بلائے گئے اجلاس میں پارلیمنٹ میں موجود 16 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ضابطہ اخلاق کی متعدد شقوں پر تحفظات کا اظہا رکیا۔

اجلاس کی صدارت چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس سردار محمد رضا خان نے کی جبکہ اجلاس میں کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ موجود نہیں تھا۔

بعد ازاں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سیکریٹری یعقوب فتح محمد نے کہا کہ کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اپنی تحریری سفارشات جمع کرائیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کردیا

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کئی سیاسی جماعتوں نے عوامی ریلیوں اور جلسوں پر پابندی کی تجویز پر خدشات ظاہر کیے ہیں تاہم انہوں نے پینا فلیکس اور بینرز وغیرہ پر پابندی پر متفق ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ ہر سیاسی جماعت ہر حلقے میں کم از کم ایک ریلی کا انعقاد کرسکے۔

انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ ہر سیاسی جماعت ہر حلقے میں کم از کم ایک ریلی کا انعقاد کرسکے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے پر مجوزہ پابندی کے حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں نے موقف اپنایا کہ ضابطہ اخلاق بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بنانے چاہئیں۔

یہ بات بھی سامنے آئی کہ بعض حقلے انتے بڑے ہیں کہ وہاں ٹرانسپورٹ کی فراہمی کی ضرورت پڑتی ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق

ای سی پی کے سیکریٹری نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے کمیشن کو بااختیار بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

اجلاس کے دوران چیف الیکشن کمشنر جسٹس رضا نے کہا کہ عوامی ریلیوں اور جلوسوں پر پابندی عائد کرکے قیمتی جانوں اور پیسوں کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین نے ای سی پی کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شفاف و آزادنہ انتخابات کا انعقاد اور انتخابی عمل کو بدعنوانیوں سے پاک رکھنے کے لیے اقدامات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ انتخابی عمل کے دوران پیسے کے بے دریغ استعمال کو روکے اور اس حوالے سے انہوں نے ری پریزینٹیشن آف پیپلز ایکٹ کی شقوں کا حوالہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا 325 سیاسی جماعتوں کو نوٹس

الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن 2018 میں آزاد ، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں کررہا ہے اور اس حوالے سے مجوزہ ضابطہ اخلاق وطن پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے مردم شماری اور حد بندی نہایت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بااثر شخصیات کی خواہش پر 30 فیصد حلقہ بندیاں کی گئیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ریٹرنگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کا انتخاب الیکشن کمیشن کے عہدے داروں میں سے ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ سے تعلق رکھنے آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کا فیصلہ گزشتہ عام انتخابات میں اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران ریلیوں اور جلسے جلوسوں پر پابندی کی تجویز جمہوری اقدار کے خلاف ہے، کارنر میٹنگ کے ساتھ ساتھ ہر حلقے میں ایک بڑے جلسے کی اجازت ہونی چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے مجوزہ ضابطہ اخلاق پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے علاوہ عوامی سماعت کی بھی تجویز دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی پی کو تحریری طور پر اس بات کا اعلان کرنا چاہیے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کیا کارروائی کی جائے گی۔

عارف علوی نے کہا کہ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ آئندہ انتخابات کے دوران ووٹرز کی تصدیق کے لیے پولنگ اسٹیشنز میں بائیو میٹرک تصدیق کی مشینز اور الیکٹرانگ ووٹنگ مشین نصب کیے جائیں۔

انہوں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی اخراجات کے حوالے سے قوانین کی کئی ضمنی انتخابات میں خلاف ورزیاں کی گئیں تاہم الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

یہ خبر 27 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں