چینی کمپنی کے ساتھ داسو پراجیکٹ کا معاہدہ ختم
اسلام آباد: 4 ارب 50 کروڑ ڈالر مالیت کے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے باضابطہ افتتاح سے قبل ہی واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے معاہدوں میں بنیادی نقائص کی وجہ سے چینی کمپنی کے ساتھ اپنے دو اہم معاہدوں کو ختم کردیا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق واپڈا نے نے چائنا ریلوے فرسٹ گروپ (سی آر ایف جی) کے ساتھ نومبر 2015 میں طے پانے والے ان معاہدوں کی پرفارمنس گارنٹی کی مَد میں 5 ارب 40 کروڑ روپے کی رقم حاصل کرکے چینی کمپنی کے کنٹریکٹر کو فوری طور پر علاقہ خالی کرنے کے احکامات بھی جاری کردیئے۔
ساتھ ہی واپڈا کی جانب سے ان منصوبوں کے لیے نئے ٹینڈرز کی دعوت بھی دے دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ عالمی بینک 4 ہزار 320 میگاواٹ کے داسو منصوبے کا اہم سرمایہ کار ہے، منصوبوں کے معطل کیے گئے معاہدوں میں 4 ارب 8 کروڑ روپے مالیت کا کالونی کی تعمیر کا منصوبہ اور چوچانگ گاؤں کی آبادکاری سمیت 57 کروڑ 20 لاکھ روپے کا شتیال میوزیم کی تعمیر کا معاہدہ شامل ہے۔
ان دو منصوبوں کی تکمیل کو اصل منصوبے کے مقام پر کام کے آغاز کے لیے اہم قرار دیا جارہا تھا۔
دوسری جانب چینی کمپنی سی آر ایف جی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر فین لنگینگ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’معاہدے کا یوں ختم کیا جانا غیرقانونی اور غیرمنصفانہ ہے‘۔
ڈائریکٹر فین نے دعویٰ کیا کہ یہ واپڈا کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین کا قبضہ حاصل کرنے کا کام مکمل کرے اور اس جگہ کو کنٹریکٹر کے حوالے کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ واپڈا کی وجہ سے داسو کے تمام منصوبے متاثر اور التواء کا شکار ہیں۔
دوسری جانب واپڈا کے چیئرمین ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین کو بھیجے گئے سوالات کے جواب میں انتظامیہ کا کہنا تھا کہ معاہدے کے عین مطابق ان کی جانب سے کنٹریکٹر کو علاقے کے کچھ حصے کا قبضہ فراہم کیا گیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا معاہدے میں تاخیر کے باعث عالمی بینک کی جانب سے قرضے کی منسوخی یا معطلی کا ردعمل سامنے آیا ہے، واپڈا کا کہنا تھا کہ ’عالمی بینک نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا‘۔
مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پراجیکٹ اور موٹر وے منصوبوں کی منظوری
چینی کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر بین الاقوامی ثالثی عدالت کی مدد حاصل کرنے کی اجازت کے لیے مقامی عدالت سے رابطہ کریں گے کیونکہ واپڈا مسئلے کو دوستانہ انداز میں حل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
چینی کمپنی کے عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ثالثی ہمارا حق ہے اور ہم خود کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں، نہ صرف مالی طور پر بلکہ اپنی ساکھ کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔
فین لنگینگ کے مطابق کمپنی عالمی عدالت کو بھی اس بات کی شکایت درج کرائے گی، ان کی کمپنی کی جانب سے 30 اسٹاف ممبران کو منصوبے کے مقام پر روانہ کیا گیا تھا تاہم زمین کے معاملے پر مقامی افراد اور واپڈا کے معاملات نہ طے ہونے کی وجہ سے عملی طور پر کوئی کام شروع نہ کیا جاسکا۔
معاملے کا اصل ذمہ دار واپڈا کو قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’واپڈا ہی اصل نادہندہ ہے کیونکہ اس نے ہمیں زمین فراہم نہیں کی، درحقیقت کنٹریکٹر کو معاہدہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، مگر ہم نے ایسا نہیں کیا‘۔
ان کے مطابق معاہدے کو کسی بھی قسم کے قانونی نوٹس کے اجراء کے بغیر ختم کردیا گیا اور اگر کوئی خلاف ورزی تھی تو اسے درست کرنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب واپڈا انتظامیہ کی جانب سے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ معاہدے کو کنٹریکٹر کی جانب سے کی گئی بنیادی خلاف ورزیوں کے باعث منسوخ کیا گیا اور اس صورتحال میں کسی قانونی نوٹس کے اجراء کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چینی کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل نے واپڈا کی جانب سے سیکیورٹی اور ری فنڈ کی مد میں وصول کیے گئی رقم کو بھی فراڈ اور اختیار کا غلط استعمال قرار دیا۔
چینی کمپنی کے دعوؤں کے جواب میں واپڈا کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے معاہدے کی تنسیخ کے نوٹس کے بعد کنٹریکٹرز سے سیکیورٹی گارنٹی کا مطالبہ واپڈا کے تحفظ اور مالی نقصان سے بچنے کا واحد راستہ تھا۔
تازہ نیلامی
دوسری جانب واپڈا نے مشہور اخبارات اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے معاہدے کے لیے نئی بولیوں کے عمل کا آغاز کردیا ہے، تاکہ منصوبے کے عملدرآمد کو مزید تاخیر کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔
واپڈا کے مطابق اگر کنٹریکٹر بین الاقوامی ثالثی کے لیے بھی رجوع کرتا ہے تو منصوبے کو مزید مؤخر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس معاہدے کے ختم ہونے سے سی پیک کے فریم ورک اور پاک چین تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا۔
واضح رہے کہ 2013 کی پاور پالیسی کے تحت داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ حکومت کا اہم منصوبہ ہے جس کے لیے عالمی بینک 590 ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کررہا ہے۔
واپڈا کی جانب سے منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے 2019 کا وقت طے کیا گیا ہے جبکہ منصوبے کا دوسرا مرحلہ 2022 تک مکمل ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
یہ خبر 23 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں