کراچی: بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم داعش کی جانب سے لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس تنظیم کے سندھ میں داخلے یا موجودگی نے مزید چوکنا کردیا ہے۔

سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ذرائع کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ داعش نے صوبے میں خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس سے قبل مذکورہ تنظیم نے نومبر 2016 میں کراچی میں ڈی ایس پی فیاض علی شگری کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

سی ٹی ڈی کے افسر راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا 'یہ سندھ میں پہلا بم حملہ ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مزار پر ہونے والا بم حملہ داعش کی جانب سے شام اور عراق میں کیے جانے والے حملوں سے مماثلت رکھتا ہے'۔

انھوں نے واضح کیا کہ خود کش بمبار نے خود کو صوفی بزرگ کی قبر کے قریب دھماکے سے اڑایا، جبکہ کچھ ہی فاصلے پر دھمال جاری تھا، کیونکہ تنظیم کے مطابق قبروں پر زیارت کیلئے جانا غیر اسلامی عمل ہے۔

سی ٹی ڈی افسر کا کہنا تھا کہ مبینہ دہشت گرد حفیظ بروہی، جس پر سیہون بم دھماکے میں اہم کردار ادا کرنے کا شبہ ہے، کی جانب سے داعش میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس کے افغانستان سے تعلق رکھنے والی کالعدم تنظیموں داعش اور جنداللہ اور سندھ اور بلوچستان میں لشکر جھنگوی کے نیٹ ورک سے تعلقات اور رابطے تھے۔

ان کا ماننا تھا کہ داعش ان کالعدم تنظیموں کے ذریعے اپنا نیٹ ورک چلا رہی ہے کیونکہ کہ سندھ میں اس کا نیٹ ورک موجود نہیں۔

انھوں نے واضح کیا کہ 2015 میں کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے حملے میں ملوث گروپ بھی داعش کے نظریات سے متاثر تھا تاہم وہ اس کالعدم تنظیم کا باقائدہ حصہ نہیں تھا۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے حال ہی میں کیے جانے والے مطالعہ کے مطابق سندھ اور ملک کے دیگر علاقے داعش کے منظم ہونے کیلئے 'زرخیز علاقے' ثابت ہوسکتے ہیں۔

ڈان کو حاصل ہونے والی سی ٹی ڈی کی دستاویزات کے مطابق پاکستان میں صوبہ پنجاب اور کراچی میں داعش کی جانب سے بہت زیادہ بھرتیاں ہورہی ہیں۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ 'داعش کا بیشتر لٹریچر انٹر نیٹ پر موجود ہے جو بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہے، اس بات کا ثبوت کراچی، اسلام آباد اور سیالکوٹ سے داعش کے سیلز سے حاصل ہونے والے پروپیگینڈا سے ہوتا ہے'۔

داعش اور لشکر جھنگوی کا گٹھ جوڑ

سی ٹی ڈی میں موجود ذرائع نے خیال ظاہر کیا ہے کہ داعش نے پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کی بنیاد 2014 میں رکھی تھی۔

اس وقت داعش نے افغانستان اور پاکستان کو اپنے 'ولایتِ خراسان' کا حصہ بنانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متعدد دہشت گروپوں، جن میں جنداللہ، تحریک خلافت پاکستان (ٹی کے پی) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کچھ ذیلی گروپ شامل ہیں، نے دسمبر 2014 میں ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بعیت کی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ لشکر جھنگوی اپنے اہل تشیع مخالف نظریات کی وجہ سے داعش کے پلیٹ فارم کا شکار ہوئی، لشکر جھنگوی کے چیف ملک اسحاق، جس پر 100 سے زائد قتل کا الزام تھا، صوبہ پنجاب میں 2015 میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے سے قبل داعش سے لنک بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

اس کی ہلاکت کے بعد آصف چھوٹو نے لشکر جھنگوی اور داعش کے درمیان لنک بنانے کا ملک اسحاق کا ادھورا کام مکمل کیا لیکن وہ بھی پنجاب ہی میں ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ملک اسحاق اور آصف چھوٹو کی ہلاکت نہ صرف لشکر جھنگوی کے مجموعی ڈھانچے کیلئے بلکہ داعش کے پاکستان کے حوالے سے عزائم کیلئے بھی ایک بڑا دھچکا تھا۔

سی ٹی ڈی کے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ لشکر جھنگوی کی قیادت کے ختم ہونے کے بعد داعش نے اس کی باگ ڈور سنبھال لی کیونکہ دونوں کالعدم تنظیمیں اہل تشیع مخالف جذبات رکھتی تھیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ لشکر جھنگوی کے دیگر دہشت گردوں کے برعکس آصف چھوٹو نے کراچی پر زیادہ توجہ دی جیسا کہ وہ شہر میں تنظیم کے سیل کا چیف بھی تھا جہاں اس کے گروپ نے اہل تشیع کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات اور پیشہ ور ماہرین کو نشانہ بنایا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق 'حکومت کو ملک میں داعش کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک کے ساتھ منسلک ہونے والے اسلامی شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے'۔

سی ٹی ڈی کی دستاویزات میں خبردار کیا گیا ہے کہ دیگر دہشت گرد گروپ مستقبل میں داعش میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں جو ملک کے پالیسی سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بڑا چیلنج ہوسکتا ہے۔

یہ رپورٹ 21 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں