لاہور: صوبہ پنجاب پر پختونوں کے ساتھ نسلی اور لسانی سلوک روا رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے واضح کیا ہے کہ پختون ہمارے بھائی ہیں اور انہیں پنجاب میں رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام کی صدارت میں پختون افراد کے وفد کی وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بعض نام نہاد سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما پنجاب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ بات انتہائی قابل مذمت ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے لوگوں کو خوفزدہ کرکے ان کی ہمدردیاں حاصل کی جارہی ہیں، یہ ملک دشمنی ہے'۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سرچ آپریشنز میں عام شہریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس صورتحال پر وہ شہریوں سے معذرت خواہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پختونوں کے ساتھ 'نسلی امتیاز' پر کے پی اسمبلی میں تنقید

خیال رہے کہ پنجاب میں انتظامیہ نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد دہشت گردوں کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، جس کے دوران کئی پختونوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔

وزیر قانون پنجاب کے مطابق اجلاس میں امیر مقام اور وفد کے شرکاء نے جو تجاویز دی ہیں ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے پوری کوشش کی جائے گی کہ سرچ آپریشن کے دوران لوگوں کی چار دیواری کے تحفظ اور عزت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں امیر مقام کو یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے اجلاس میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے جو فیصلے کیے ہیں ان پر بھرپور عملدرآمد ہوگا، جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو اقدامات کیے جائیں گے ان میں کسی کمیونٹی کو کوئی خدشہ نہیں ہونا چاہیئے'۔

پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کے فائنل کے لاہور میں انعقاد پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل فائنل کا لاہور میں ہونا پوری قوم کی خواہش ہے۔

یاد رہے کہ 13 فروری کو مال روڈ پر خودکش حملے میں 6 پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد پنجاب کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے بھر میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔

حملے کے چند روز بعد محکمہ داخلہ پنجاب کے ’صوبائی انٹیلی جنس سینٹر‘ نے ایک خط جاری کیا تھا جس میں پولیس حکام کو مختلف شہروں کی سیکیورٹی سخت رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

خط میں مزید کہا گیا تھا کہ ’کومبنگ آپریشنز صوبے کے تمام علاقوں بالخصوص افغان اور پٹھان آبادی والے علاقوں میں کیا جائے۔‘

مزید پڑھیں: 'پنجاب میں آپریشن دہشتگردوں نہیں پختونوں کے خلاف'

گزشتہ ہفتے راولپنڈی پولیس نے بھی فاٹا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نگرانی شروع کی تھی۔

جس کے بعد پختونوں کی مبینہ غیر قانونی گرفتاریوں پر خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں صوبہ پنجاب پر نسلی اور لسانی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کیا گیا، جبکہ کے پی اسمبلی میں منظور ہونے والی ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے پنجاب، سندھ، آزاد جموں اور کشمیر میں پختونوں کو ہراساں کیے جانے کی مزمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

قرار داد میں صوبائی حکومتوں پر گرفتار افراد کو فوری رہا کرنے اور انتقامی پالیسی ترک کرنے پر بھی زور دیا گیا۔

گذشتہ روز ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی ’پختونوں‘ سے اپنے صوبے میں بظاہر ’نسلی تعصب‘ برتنے پر حکومت پنجاب کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایچ آر سی پی نے اپنی پریس ریلیز میں معاملے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پورے نسلی گروہ کو مشتبہ بنائے جانے کی واضح مذمت کا مطالبہ کیا اور نسلی تعصب سے بچنے کے لیے عہدیداروں کے تربیتی پروگرام متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب: ’پشتونوں‘ کے ساتھ نسلی تعصب برتنے کی مذمت

بیان میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ ’پختون افراد کو ان کی ظاہری وضع قطع کے باعث ہراساں کیے جانے اور مشتبہ بنانے سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔‘

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رہنما بشرٰی گوہر نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ پنجاب میں آپریشن دہشت گردوں کے بجائے پختونوں کے خلاف کیا جارہا ہے، جس کا مقصد انہیں دیوار سے لگانا ہے۔

بشریٰ گوہر کا کہنا تھا پنجاب حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح دہشت گردوں سے توجہ ہٹائی جائے اور اسی لیے وہاں غیر قانونی طور پر پختون افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں